ایک صاحبِ عزم و ہمت قائد، جس نے علم و عمل، فہم و فراست اور بصیرت و قیادت کے ہر میدان میں قدم رکھتے ہی پوری ملت میں اپنی فکری و عملی توانائی کا لوہا منوایا۔ ایک ایسی شخصیت، جس کی لِلہیت، نظریاتی پختگی اور بے باک سیاسی شعور نے ملتِ جعفریہ پاکستان کو ایک نئی شناخت بخشی، یہ ہیں محبوب و محترم قائد، شہیدِ ملت علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ، جنہوں نے حق و عدل کی صدا کو بلند ترین منازل تک پہنچایا۔

علامہ شہید سید عارف حسین الحسینیؒ ۱۹۴۶ء کے ماہِ نومبرمیں سرزمینِ کرم، پیواڑ میں جو پاراچنار کے قریب ایک تاریخی گاؤں ہے، اُس خانوادۂ متدین میں متولد ہوئے، جو علم، تقویٰ اور دیانت کی روایات کا امین تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کرنے کے بعد آپ کی علمی جستجو نے آپ کو دینی علوم کی جانب مائل کیا۔ فکری بالیدگی کی طلب نے آپ کو حوزۂ علمیہ نجف اشرف کی جانب روانہ کیا، جہاں اُس دور میں رھبر کبیر امام خمینیؒ کی علمی و انقلابی قیادت ابھر رہی تھی۔

نجف میں قیام کے دوران، امام خمینیؒ کے افکار و سیرت نے شہید حسینیؒ کی شخصیت پر گہرے نقوش ثبت کیے۔ آپ نہ صرف ایک جاں نثار شاگرد کی حیثیت سے ان کے افکار کے حامل و مبلغ بنے بلکہ عملی میدان میں بھی اسی انقلابی فکر کی ترویج میں سرگرم عمل رہے۔ بعثی حکومت نے ۱۹۷۵ء میں آپ کو سیاسی سرگرمیوں کے الزام میں عراق بدر کر دیا لیکن نظریاتی وابستگی محض جغرافیائی حدود کی پابند کب ہوتی ہے؟ دل امام خمینیؒ کے ساتھ دھڑکتا رہا۔

ایران میں شاہی استبداد کے خلاف جاری تحریک کے دوران آپ نے قم میں قیام کیا، جہاں حصولِ علم کے ساتھ ساتھ تحریکِ اسلامی میں بھی مؤثر کردار ادا کیا۔ تاہم، ساواک جیسے جبر کے اداروں نے آپ کو خاموش کروانے کی متعدد کوششیں کیں مگر مکتبِ حسینیؑ کا پروردہ، جس نے هَيْهَاتَ مِنَّا الذِلَّة کا درس لیا ہو، وہ بھلا کب جھکتا ہے؟ چنانچہ آپ کو ایران سے بھی بےدخل کر دیا گیا۔

آخرکار، آپ بادلِ نخواستہ پاکستان واپس تشریف لائے، جبکہ یہ وہ دور تھا جب امام خمینیؒ کی قیادت میں اسلامی انقلاب اپنے عروج پر تھا۔ پاکستان میں آپ نے اپنی تمام ترتوانائیاں قوم کی دینی، فکری اور سیاسی تربیت کے لیے وقف کر دیں۔ مساجد و مدارس کی تعمیر، محروم طبقات کی اعانت، یتامیٰ و بیوگان کی سرپرستی اور انقلابی فکر کی ترویج، یہ سب آپ کی ہمہ جہت خدمات کا جزوِ لاینفک تھے۔

١٠ فروری ۱۹۸٤ء کو ملتِ جعفریہ پاکستان کی سب سے بڑی دینی و سیاسی تنظیم تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کی سپریم کونسل نے، مرحوم مفتی جعفر حسینؒ کے بعد، آپ کو بطور قائد منتخب کیا۔ اس منصب پر فائز ہونے کے بعد آپ نے ملت کے مفادات کو قومی و سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لیے بیداری کی ایسی تحریک برپا کی جو ظلم کے خلاف طوفان بن کر اٹھی، مظلوموں اور محروموں کے سروں پر تحفظ کی فضا بن کر چھائی، سامراجیت اور نجدیت پر بادل بن کر گرجی اور آمریت پر ٹوٹ کر برسی، استبداد اور استحصال کے اندھیروں میں بجلی بن کر چمکی، عالم اسلام پر خوشبو بن پر پھیلی اور ملت اسلامیہ کے دلوں میں اتری جس نے استبداد، فرقہ واریت اور سامراج کے خلاف ایک نئی صف بندی کو جنم دیا۔

آپ کی قیادت کا نمایاں پہلو وحدتِ امت کی دل سوزی اور خلوص پر مبنی کاوشیں تھیں۔ اتحاد بین المسلمین کا نعرہ لے کر آپ نے نہ صرف داخلی فرقہ واریت کا خاتمہ کیا بلکہ عالمی استکبار خصوصاً امریکہ کو بھی للکارا۔

۶جولائی ۱۹۸۷ء کو لاہور میں منعقدہ تاریخی قرآن و سنت کانفرنس میں آپ نے جو انقلابی منشور پیش کیا، اس نے ملت کے دلوں میں ولولہ بیدار کر دیا اور سنّی و شیعہ طبقات کے درمیان موجود تمام بدگمانیاں تحلیل ہونے لگیں۔

آپ کی شخصیت اور افکار، دشمنانِ اسلام کے لیے ناقابلِ برداشت بن چکے تھے۔ امام خمینیؒ کے شاگردِ صادق اور ان کے نظریاتی مبلغ کو راستے سے ہٹانے کی عالمی سازش اسی وقت سے جاری تھی، جب آیت اللہ سید محمد باقر الصدرؒ اور ان کی ہمشیرہ بنت الہدیؒ کو شہید کیا گیا، جب امام موسیٰ صدرؒ کو لیبیا میں لاپتہ کیا گیا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی، قائدِ ملتِ پاکستان علامہ سید عارف حسین حسینیؒ کی شہادت ہے۔

۵ اگست ۱۹۸۸ء کو، دشمنانِ دین نے آپ کے جسم کو تو ہم سے لے لیا مگر آپ کے افکار و نظریات آج بھی زندہ و تابندہ ہیں۔ رھبر کبیر، بت شکنِ زمان ، امام خمینیؒ نے آپ کی شہادت پر فرمایا:‏ میں اپنے عزیز بیٹے سے محروم ہوا ہوں۔

بلاشبہ، ملتِ اسلامیہ پاکستان آج بھی شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ کے افکار کے پرچم تلے اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

مساجد ہمارے مورچے ہیں، جہاں انسان اپنے رب کے حضور تذلل اور خشوع و خضوع کرتا ہے

شہید عارف حسین الحسینیؒ

قرآن کہتا ہے کہ مومن ہونے کا مطلب ہے سربلندی اور سرفرازی۔
مومن کا مقصد واضح ہوتا ہے، اس لیے وہ کبھی سست نہیں پڑتا۔

شہید عارف حسین الحسینیؒ

ایک اسلامی خاتون کو شریعت اسلامی، تعلیمات اہل بیتؑ اور فقہ جعفریہ کا پابند ہونا چاہیے

شہید عارف حسین الحسینیؒ

اور ہماری رگوں میں بھی وہی خون جاری ہے جو ایرانی اور دیگر مسلمانوں کے بدن میں جاری ہے۔ اگر وہ سامراج کے خلاف لڑ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں لڑ سکتے؟

شہید عارف حسین الحسینیؒ

  تازہ مضامین