امامیہ آرگنائزیشن کے کنونشن سے خطاب
۱۹۸۵
چیچہ وطنی
بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَصَلَّی اللَّہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّآلِہِ الطَّاھِرِیْنَ وَ بَعْدُ فَقَدْ قَالَ اللَّہُ اَعُوْذُ بِاللَّہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَافَسَادًا (قصص۔۸۳)
مجھے آپ کی مصروفیات کا احساس ہے کب سے آپ مصروف و مشغول ہیں۔ یقیناً تھک چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انسان جب بولتا ہے تو اسے بھوک بھی لگتی ہے اور پھر بعض حضرات کی گاڑیوں کا وقت بھی ہونے والا ہے۔ ان سب مسائل کو مدنظر رکھ کر میں حتیٰ المقدور اختصار کے ساتھ دو تین مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ کی زحمتوں کو ختم کروں گا۔
عہدوں سے رفتار و کردار بدل جاتا ہے
پہلا مسئلہ جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ ہے ذمہ داری اور عہدوں کا مسئلہ۔ وہ بھی اسلامی نقطہ نظر سے۔ اسلام اور دوسرے مادی مکاتب کے درمیان عہدوں کے لحاظ سے فرق یہ ہے کہ مادی مکتب والے عہدوں کو مقصد سمجھتے ہیں جو بھی کسی عہدے پر آتا ہے وہ شخص اپنے آپ کو اس عہدے کا مالک سمجھتا ہے لیکن اسلام میں یہ عہدے وسائل ہیں، ذریعہ ہیں، مقصد نہیں ہیں۔ جس شخص کو بھی عہدہ دیا جاتا ہے وہ شخص اس عہدے کو اپنے لیے ذمہ داری سمجھے اور خود کو اس عہدے کا امین تصور کرے۔ کوئی شخص اگر ایک عہدے پر آئے اور وہ خود کو اس عہدے کا مالک سمجھے تو اس کی رفتار اور ہوگی اور جو شخص اپنے آپ کو اس عہدے کا امین اور اپنے لیے ایک ذمہ داری سمجھے تو اس کا رفتار و کردار اور ہوگا۔ میں یہاں پر اپنے عزیز بھائی جن کو میں چند مہینوں سے پہچانتا ہوں اور جنھیں آپ باقر بھائی کہتے ہیں ان کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ یہ ذمہ داری جو آپ کے حوالے کی گئی ہے مجھے امید ہے کہ اس ذمہ داری کے قبول کرنے سے آپ کے رویہ میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ البتہ تبدیلی ایک لحاظ سے آئے گی۔ وہ اس لحاظ سے کہ پہلے آپ کی ذمہ داری محدود تھی اب آپ کی ذمہ داری زیادہ ہوگئی ہے تو اس لحاظ سے آپ کی زندگی میں ضرور تبدیلی آنی چاہیے یعنی اب آپ زیادہ سے زیادہ وقت، اپنی فکر اور اپنی توانائیوں کو اس مقدس تنظیم کے لیے صرف کریں لیکن دوسرے لحاظ سے آپ میں تبدیلی نہیں آنی چاہیے۔ وہ یہ کہ جب بعض افراد جو مادی فکر اور سوچ رکھتے ہیں انھیں کوئی عہدہ ملتا ہے تو وہ اپنے کو بہت کچھ سمجھنے لگتے ہیں اور عزیز و معزز قسم کے دوست جب اس کے پاس آتے ہیں تو گویا وہ ان کو پہچانتے ہی نہیں۔
اس قسم کی تبدیلی آپ کی زندگی میں نہیں آنی چاہیے۔ خدانخواستہ اگر آپ کی زندگی میں اس قسم کی تبدیلی آگئی تو یہ ایک خطرناک چیز ہے اور آپ کے لیے خطرے کی علامت ہے اور یہی فرق اسلام اور غیر اسلامی فکر کے درمیان ہے۔ جو اسلامی فکر رکھتا ہو اور جو اسلام کو اپنا مکتب مانتا ہو اور خود اپنے آپ کو مجاہد و مؤمن اور مکتبی سمجھتا ہو تو وہ نہ صرف عہدہ لینے کے بعد خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ شخص عہدہ قبول کرنے سے پرہیز کرتا ہے جب دوسرے رفقاء اسے عہدے کی پیشکش کریں تو وہ اس لیے اس کو لینے سے گریز کرتا ہے کہ عہدے میں ذمہ داری ہے، تکلیف شرعی ہے لیکن اس کے مقابلے میں جو غیر اسلامی فکر رکھتا ہو وہ عہدہ پر پہنچنا چاہتا ہے اگرچہ اس عہدے تک پہنچنے میں اس کو جھوٹ ہی کیوں نہ بولنا پڑے۔ اس کو لاکھوں اور کروڑوں روپیہ ہی کیوں نہ خرچ کرنا پڑے اور اسے دوسروں کے سامنے ذلت ہی کیوں نہ اٹھانی پڑے۔ چونکہ وہ شخص عہدے کو ایک مقصد سمجھتا ہے لہٰذا وہ یہ سب چیزیں برداشت کرتا ہے اگر ایک شخص مؤمن و مجاہد ہے اسلام کو اپنے لیے مقصد سمجھتا ہے تو وہ حتیٰ المقدور عہدے کو قبول کرنے سے گریز کرتا ہے۔
جس طرح یہ قصہ شاید آپ نے سنا ہوگا کہ جب مرحوم ابن طاؤسؒ (یہ وہ شخصیت ہے کہ جس کے بارے میں ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ وہ کئی مرتبہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی زیارت سے شرفیاب ہو چکے تھے۔) جب انھیں اس زمانے کی حکومت نے بلایا کہ تم یہ قاضی کی پوسٹ قبول کرو، قاضی بن جاؤ تو انھوں نے انکار کیا جب حکومت نے بہت اصرار کیا اور انھوں نے انکار کیا تو آخرکار حکومت نے ان سے پوچھ لیا کہ آپ یہ عہدہ کیوں قبول نہیں کرتے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ میں جب سے بالغ ہوا ہوں، جب سے میں مکلف ہوا ہوں اس وقت سے میرے وجود کے اندر عقل اور نفس کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی ہے اب تک میں ان دو کے درمیان تصفیہ اور فیصلہ نہیں کرسکا تو دوسرے لوگوں کے درمیان کیسے یہ کام کر پاؤں گا۔
عہدے کی قبولیت کیسے؟
اب اگر ایک شخص واقعاً مجاہد ہے، مکتبی ہے تو وہ کوشش کرے گا کہ عہدہ قبول نہ کرے۔ بشرطیکہ اس کے لیے واجب عینی نہ ہو مثلاً بعض اوقات ہوسکتا ہے کہ ایک عہدہ قبول کرنا انسان کے لیے واجب عینی ہوجائے۔ یعنی واجب کفائی سے بڑھ کر واجب عینی بن جائے اور یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب اس کے علاوہ کوئی دوسرا فرد اس عہدے کو قبول کرنے کے لیے موجود نہ ہو تو پھر وہ عہدہ قبول کرتا ہے اور اس کے بعد شب و روز اس ذمہ داری کو بطور احسن و اکمل بجا لانے کے لیے کوشش کرتا ہے میں اپنے اس عزیز بھائی اور اپنے دوسرے بھائیوں سے بھی یہی عرض کروں گا کہ یہ امانت اور یہ ذمہ داری جو آپ کے سپرد کی گئی ہے آپ اسے حتیٰ المقدور احسن طریقے سے پورا کرنے کی کوشش کریں۔ تاکہ کل آپ کے رفقاء آپ کو کسی بات کا ذمہ دار قرار نہ دیں۔ خداوند متعال ہمارے بھائیوں کو جنھوں نے آئندہ کے لیے اس تنظیم کی ذمہ داریاں قبول کیں ہیں انھیں اپنی ذمہ داریوں کو بطور احسن و اکمل بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔
خراج تحسین
دوسرا نکتہ جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ آپ کی فعال اور ملک گیر تنظیم ہے میں تقریباً ہر جگہ خصوصی مجالس اور عمومی محافل میں یہ اظہار کرتا رہتا ہوں کہ اگر واقعاً پاکستان میں اس وقت ہم کسی کو کہہ سکتے ہیں کہ صحیح معنوں میں مسلمان ہیں تو وہ ہمارے یہی نوجوان ہیں جو آئی او اور آئی ایس او کی تنظیموں میں ملک، قوم، مذہب اور قرآن و عترت کے لیے کام کر رہے ہیں۔
پہچان کا معیار
ہر معاشرے کا اور ہر تنظیم کا پہچاننا کئی طریقوں سے ہوسکتا ہے یا تو ان کے لٹریچر اور ان کے نعروں سے یا پھر ان کے بینروں سے ہم انھیں پہچان سکتے ہیں۔ اگر ہم آئی او کی فکر اور سوچ کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کے افکار کا اندازہ ان کے بینروں، ان کے لٹریچر اور ان کے نعروں سے واضح طور پر ہوجائے گا کہ ان کی فکر مذہبی، اسلامی، قرآنی اور اہل بیت علیہ السلام کے خط والی فکر ہے اگر ہم کسی کو پہچاننا چاہیں تو ہم ان کو دیکھیں کہ وہ کہاں رہتے ہیں ؟ مثلاً اگر آپ ایک پرندے کو دیکھتے ہیں کہ وہ بہت بلندیوں پر پرواز کر رہا ہے۔ بلندیوں پر اڑتا رہتا ہے تو آپ سمجھ جائیں گے کہ اس پرندے کی فکر بلند ہے اسی طرح ایک چھوٹا سا حیوان جو خراب اور گندی جگہوں پر بیٹھتا ہے تو اس کی فکر کا اندازہ آپ اس کی جگہ سے لگا سکتے ہیں کہ یہ کس کی فکر میں ہے ؟
اب آئی۔ او کے جوانوں کی فکر کا اندازہ یہاں سے لگا سکتے ہیں کہ جب بھی آپ ان کو دیکھتے ہیں۔ یہ امام بارگاہوں میں، مساجد یا دینی مدارس میں آپ کو نظر آتے ہیں اور یہ ہر اس جگہ دکھائی دیتے ہیں کہ جہاں پر مذہب کی خو شبو آتی ہے۔ اب تک ہم نے انھیں سینما ہال، کلبوں یا دوسرے فساد خانوں میں نہیں دیکھا غرض ان مقدس مقامات یعنی مساجد، دینی مدارس اور دینی محافل اور قومی اجتماعات میں انھیں دیکھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے جوان جو ان تنظیموں میں کام کر رہے ہیں خالص اسلامی اور مذہبی فکر رکھتے ہیں۔ اور ہم آپ سے یہی توقع رکھتے ہیں۔ اگر ہم آپ کو کسی اور جگہ دیکھ لیں آپ میں سے بعض افراد سے کسی اور قسم کا نعرہ سن لیں یا کسی اور قسم کی حرکت دیکھ لیں تو ہم آپ سے مایوس ہو جائیں گے۔ لیکن الحمد للہ اب تک ہم نے اس قسم کی کوئی چیز آپ میں نہیں دیکھی اور یہی ہمارے لیے آئندہ کے لیے نوید ہے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ واقعاً مکتبی ہوں وہ مکتب وہ نظریہ جو اسلام و قرآن کا ہے، وہ مکتب جو اہل بیت علیہ السلام نے پیش کیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام جس کے متعلق فرماتے ہیں۔
نظر و فکر کا سر چشمہ:قرآن و سنت
مَنْ اَخَذَ دِیْنَہُ، مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ وَ سُنَّۃِ نَبِیِّہِ زَالَتِ الْجِبَالُ قَبْلَ اَنْ یَزُوْلَ وَ مَنْ اَخَذَ دِیْنَہُ، مِنْ اَفْوَاہِ الرِّجَالُ رَدَتْہُ الرِّجَالُ (بحار الانوار، ج ۲۳،ص ۱۵۳)
یعنی وہ مکتب وہ نظریہ وہ عقیدہ جو قرآن سے لیا گیا ہے جو سنت رسول ﷺ اور سنت اہل بیت علیہ السلام سے لیا گیا ہے۔ ایسا مکتب ہمارے لیے باعث فخر ہے، یہی ہمارے لیے باعث نجات اور باعث سعادت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس قسم کے مکتبی بنیں اور اس قسم کے مؤمن ہوں تو پھر ہمیں ایسی محافل میں شرکت کرنا چاہیے جہاں پر علماء اسلام و قرآن سے ہمیں آشنا کریں، اہل بیت اطہار علیہ السلام کے متعلق ہمیں بتائیں۔ مساجد میں، امام باڑوں میں، مدارس میں یہی عقیدہ اور مکتب ہمیں ان افراد سے ملے گا نہ ایسے افراد سے کہ جن کا اسلام، قرآن اور اہل بیت علیہ السلام کے ساتھ دور کا واسطہ بھی نہیں۔ پس یہاں ہمیں سوچنا چاہیے کہ جو کام ہم کریں پہلے یہ دیکھیں اس کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے؟ اہل بیت علیہ السلام کیا فرماتے ہیں؟ امام زمانہ علیہ السلام کس بات پر راضی ہیں؟ اگر اس حد تک ہم پہنچ گئے تو اس وقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم مکتبی ہیں۔ ہم مؤمن ہیں، ہم شیعہ ہیں، ہم مسلمان ہیں،
میں ایک قصہ آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ آج سے تقریباً پانچ سال پہلے جب میں قم گیا تھا تو میرے ایک استاد حفظ اللہ تعالیٰ نے یہ قصہ سنایا کہ آج پانچ دس پاسدار میرے پاس آئے تھے جو مازندران میں بابل سر شہر کے رہنے والے تھے وہ بابل سر جو شاہ کے زمانے میں مازندران اور شمالی ایران میں ظلم، فحاشی و عیا شی کا اڈا تھا۔ یہ شہر چونکہ بحر خَزَر کے کنارے پر ہے۔ وہاں پر جوان لڑکیاں اور لڑکے ہر قسم کی فحاشی کرتے تھے۔ ہمارے استاد نے فرمایا کہ اس شہر کے پاسداران میرے پاس آئے۔ تو ایک جوان پاسدار نے یہ بات کی۔ ہمارے شہر میں ایک بڑا سرمایہ دار آدمی ہے جس کے پاس بہت دولت ہے اور اس کی ایک ہی لڑکی ہے اور اس کا کوئی وارث نہیں وہ لڑکی کہتی ہے کہ میں چاہتی ہوں کہ دین کی طرف جاؤں اور قم میں درس پڑھوں اور ایک پاسدار کے ساتھ شادی کروں (وہ پاسدار بھی اسی بابل سر کا تھا) اور اس لڑکی نے باپ سے کہا کہ اگر مجھے خواہ مخواہ شادی پر مجبور کرتے ہو تو پھر میں فلاں پاسدار کے ساتھ شادی کروں گی (اس پاسدار نے اپنا نام لیا) مگر وہ شخص چونکہ مغربی ذوق رکھتا تھا اور اس کے ذہن میں یہ تھا کہ وہ ایسے شخص کو داماد بنائے گا جو ماڈرن ہو اب چاہے وہ شراب خوار، بے نماز اور دیگر برائیوں میں مبتلا ہی کیوں نہ ہو لیکن ہو ماڈرن مثلاً بہت بڑا انجینئر ہو یا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو۔ اس کا باپ اصرار کرتا تھا کہ فلاں حکومتی عہدے دار جو بڑا ڈاکٹر ہے انجینئر ہے اس سے شادی کرو لیکن وہ لڑکی کہتی تھی کہ اگر میں شادی کروں گی تو صرف پاسدار کے ساتھ شادی کروں گی۔ اب آپ یہاں پر دیکھیں باایمان اور مکتبی ہونا کسے کہتے ہیں؟ وہ پاسدار کہہ رہا تھا کہ میں نے کہا کہ میں اس لڑکی سے شادی نہیں کرتا۔ کیوں؟ ایمان اسے کہتے ہیں مکتبی اسے کہتے ہیں۔ حالانکہ اگر یہ جوان اس لڑکی کے ساتھ شادی کرتا تو مثلاً اس لڑکی کے علاوہ اس کے باپ کی بہت بڑی دولت اس کے ہاتھ میں آجاتی۔ اس نے کہا (البتہ خود اس نے یہ الفاظ ہمارے استاد کے سامنے کہے) کہ چونکہ میں رہبر انقلاب اسلامی امام خمینی کا مقلد ہوں اور امام خمینی کی توضیح المسائل میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اگر ایک لڑکی مجھ سے شادی کرنے پر راضی ہو لیکن اس لڑکی کا باپ مجھ سے راضی نہ ہو تو یہ صحیح نہیں کیوں کہ باکرہ لڑکی کے لیے باپ کی رضایت شرط ہے اور میں چونکہ امام خمینی کا مقلد ہوں لہٰذا دنیا کے مال و دولت اور حسن کی خاطر میں کبھی بھی اپنے رہبر اور اپنے مجتہد کی مخالفت نہیں کرسکتا۔
میں زیادہ طول نہیں دینا چاہتا صرف یہی عرض کروں گا کہ ہم اپنے بھائیوں سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ آپ نے جو پروگرام شروع کئے ہیں جس مقصد کی طرف آپ جارہے ہیں جس ہدف و منزل کی طرف آپ بڑھ رہے ہیں اس وقت آپ اس منزل تک پہنچ سکیں گے کہ جب آپ یہ کوشش کریں کہ جو کام آپ کرنا چاہتے ہیں اسلام کا اس کے بارے میں کیا نظریہ ہے؟ اہل بیت علیہ السلام اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ اور وہ مجتہد جس کی آپ تقلید کرتے ہو اس نے کیا فتویٰ دیا ہے۔ جب تک آپ اس حد تک نہیں پہنچتے تو اس وقت تک آپ کو مکتبی، متعہد اور مؤمن کہنا شاید صحیح نہ ہو (غور فرمائیے)۔
سختیاں کم کرکے جاذبیت کی طرف توجہ دیں
ہم آپ سے یہی توقع رکھتے ہیں اور ساتھ یہ آپ کی خدمت میں عرض کروں گا کہ آپ کی تنظیم کے اندر اس قدر سختیاں نہیں ہونی چاہئیں کہ بعض نیک اور فعال افراد اگر آپ کے ساتھ آنا چاہیں تو آپ انھیں ٹھکرا دیں۔ آپ کو ایسی پالیسی اختیار کرنی چاہیے کہ آ پ مخلص پاک اور فعال لوگوں کو اپنی طرف جذب کریں۔ میں یہ بات بعنوان طالب علم کہہ رہا ہوں میں تو اپنے آپ کو ایک طالب علم سمجھتا ہوں لیکن ہمارے بزرگ علماء یہ فرماتے ہیں کہ تمھاری پالیسی ایسی ہونی چاہیے کہ بعض افراد جو آپ کے ساتھ ہم کاری کرنا چاہتے ہیں فعال ہیں اور ہوسکتا ہے کہ مثلاً آئندہ ان کے آپ کے ساتھ تعلقات اور زیادہ بہتر ہو جائیں۔ ان کو اپنی طرف جذب کرلو۔ اس قدر سختیاں نہ کرو کہ وہ افراد آپ کے نزدیک نہ آسکیں یعنی اسلام میں پہلے آپ لوگوں کو جذب کریں لیکن اگر ایک آدمی بہت خراب ہوگیا ہے خدانخواستہ قابل اصلاح نہیں تو آپ اس کو چھوڑدو۔ کچھ افراد جن سے آپ بہترین فائدہ لے سکتے ہو ان کو آگے لے آئیں۔ آپ کا مقصد پورے پاکستان میں اس تنظیم کو فعال بنانا ہے تو آپ کو ہر قسم کے افراد کی ضرورت ہوگی۔ بعض افراد ہوسکتا ہے کہ انھوں نے تعلیم حاصل نہ کی ہو اور دوکاندار ہیں مثلاً تجارت میں ماہر ہیں۔ ایسے افراد کو آپ لے لیں آپ چاہتے ہیں کہ ملک کی فلاح و بہبود کے لیے مثلاً اقتصادی منصوبہ بندی کریں اور اسی طرح دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد جن کے میں یہاں مناسب نہیں سمجھتا نام لوں ان سے بھی آپ اپنے درمیان افراد لے لیں غرض آپ کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اس طرف جذب کرلیں۔
ہماری تین حیثیتیں شیعہ، مسلمان، پاکستانی
اگر واقعاً یہ تنظیم ملک گیر ہے اور ملک کی سطح پر ابھر کر آنا چاہتی ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ اس کا مقصد واضح ہو تو اس کے لیے میں یہ ضرور عرض کروں گا کہ ہم ایک ہی وقت میں تین حیثیت رکھتے ہیں ایک ہم شیعہ ہیں دوسرے ہم مسلمان ہیں تیسرے ہم پاکستانی ہیں۔ ملک کی تاریخ میں ہم نے اپنے مسلمان ہونے کو اور پاکستانی ہونے کو بھلا دیا ہے آپ کہیں گے کہ یہ کیا ہے اور کیسے ہے؟ ہم نے کب اسلام سے انکار کیا؟ میں عرض کروں گا۔ کیا آپ نے واقعاً ماضی میں اپنے کو مسلمان سمجھا ہے؟ اگر ہم مسلمان تھے تو یہ حدیث شریف ہے۔
مَنْ اَصْبَحَ وَلَمْ یَہْتَمَّ بِاُمُوْرِ الْمُسْلِمِیْنَ فَلَیْسَ بِمُسْلِمٍ
جس نے صبح کی اور دوسرے مسلمانوں کے امور میں اسے کوئی دلچسپی نہ ہو۔ وہ اپنے سوا کسی کو اہمیت نہ دے تو وہ اسلام سے خارج ہوا۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ آپ گذشتہ دور میں بھی مسلمان تھے تو ہم اپنی بات ثابت کرتے ہیں۔ جب فرانس کی طرف سے الجزائر پر ظلم ہو رہا تھا، الجزائری مسلمان اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے تو کیا پاکستانی شیعوں نے اپنے قومی پلیٹ فارم سے ان مسلمانوں کے ساتھ اتحاد یا ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان بھی ہیں تو ناصر کے دور میں مصر میں جب اسلام کے خلاف نیشنلزم اور قومیت کے مسئلے کو ہوا دی گئی تھی اور اس نے اسلام اور اسلامی نظام چاہنے والوں کے خلاف محاذ کھول دیا تھا۔ سید قطب اور حسن البَنَّا جیسی شخصیات کو اس نے پھانسی دے دی تھی تو کیا پاکستان سے ہمارے قومی پلیٹ فارم سے اس کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ فلسطین کی 37 سالہ زندگی میں کیا ہم نے قومی پلیٹ فارم سے ان کے حق میں قرارداد پاس کی۔ اسی طرح جب 1963 کو رہبر انقلاب خمینی عظیم روحی لہ الفداء کو شاہ نے ترکیہ اور ترکیہ سے نجف اشرف کی طرف جلا وطن کر دیا تو مولانا مودودی نے شاہ کے اس اقدام کی مذمت کی لیکن کیا ہم نے قومی پلیٹ فارم سے شاہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی؟ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گذشتہ ادوار میں ہم نے اپنے آپ کو مسلمان تصور نہیں کیا تھا۔ اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان تصور کرتے تو یہ ایسے موارد تھے اور ان شاء اللہ اور بھی موارد تھے کہ ہمیں اپنے اسلامی بھائیوں کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر اظہار ہمدردی کرنا چاہیے تھا اور ہم نے نہیں کیا۔ اسی طرح ہم پاکستانی بھی ہیں۔ ہمارے بھائیوں نے (اس دوسری چیز کی طرف توبہت توجہ کی ہے) روسی جارحیت جو افغانستان میں ہو رہی ہے اس کی انھوں نے مذمت کی، اس مقدس پلیٹ فارم سے امریکہ شیطان بزرگ کی ہم نے مزمت کی۔ لبنان میں مسلمانوں کے خلاف یہ جو کاروائیاں ہو رہی ہیں اس پر اسرائیل کے خلاف ہم نے بھرپور قرارداد پاس کی۔ صدام یزید نے امریکہ اور کفر کے اشارے پر ایران اسلامی پر جنگ مسلط کی اور اب بھی شہروں پر بمباری کر رہا ہے اور عراق کے اندر مظلوم علماء کو شہید کر رہا ہے۔ اس کے خلاف تو آپ نے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کیا۔ اور بہت اچھا کیا۔ الحمد للہ اس دوسری چیز کے لیے آپ اپنے پلیٹ فارم سے اس کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن تیسری چیز یہ ہے کہ ہم پاکستانی بھی ہیں۔ شیعہ ہونے کی حیثیت سے ہمارے جتنے بھی مطالبات ہیں ہم ان مطالبات کے لینے کے لیے ہر قسم کی قربانی دیتے ہیں۔ ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہیں۔ خواہ وہ عزاداری سید الشہداء علیہ السلام کے تحفظ کا مسئلہ ہو یا نفاذ فقہ جعفریہ ہو یا دوسرے مسائل ہوں۔ لیکن ہم پاکستانی بھی ہیں اور پاکستانی کی حیثیت سے ہمارے کچھ فرائض اور حقوق ہیں۔
یہ جنگ جو ایران پر مسلط کی گئی ہے اور کفر جہانی مل کر ایران اسلامی کے خلاف ہر قسم کے حربے استعمال کر رہا ہے ہم اس کے متعلق بھی اپنی حکومت سے سوال کرسکتے ہیں کہ جب یہ جنگ خود عراق نے شروع کی ہے پھر کیوں آج تک اس حکومت نے عراقی جارحیت کی مذمت نہیں کی۔ جب اقوام متحدہ کی اپیل پر دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ ہوگیا تھا کہ شہری آبادیوں پر بمباری نہ کی جائے گی تو چند دن سے عراق نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیوں ایران کے شہروں پر بمباری شروع کر رکھی ہے۔ کیوں یہ لوگ خاموش ہیں کیوں اقوام متحدہ اور اس میں موجود ممالک امریکہ سے ڈرتے ہیں۔ ہم اسلامی ممالک سے بھی تقاضا کرتے ہیں کہ اسلام میں جو جارح ہو، جو ظالم ہو وہ کبھی بھی مظلوم کے ساتھ برابر نہیں ہوسکتا۔ یہاں اسلامی ممالک کے سربراہان نہ صرف یہ کہ ظالم کی مذمت نہیں کر رہے ہیں بلکہ خفیہ طور پر مدد بھی کر رہے ہیں ہم دنیا کی دوسری حکومتوں سے اور اداروں سے سوال کرتے ہیں کہ آیا عراق میں بغیر مقدمہ چلائے بعض علماء کو شہید کیا جانا یہ حقوق انسانی کی پامالی نہیں ہےـ؟ کیوں تم یہ ظلم بند نہیں کرواتے۔
میں نے اسلامی ممالک کے سربراہان کے نام پر اور اسی طرح دوسرے غیر اسلامی ممالک کے سربراہان کے نام پر ایک ایک خط لکھا ہے اور اس کو صرف آخری شکل دینا ہے۔ اس میں ہم نے اس قسم کے سوالات ان سے کیے ہیں اور ہم ان خطوط سے امریکہ شیطان بزرگ کو یہ تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر امریکہ اپنی شیطنت سے دست بردار نہیں ہوتا تو جس طرح لبنان کے مسلمانوں نے امریکہ کو ذلیل اور خوار کیا اسی طرح ہم لوگ بھی امریکہ کو ذلیل و خوار کر دیں گے۔ ہم امریکہ پر اور دوسری طاغوتی طاقتوں پر یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم وہ قوم ہیں جن کی تربیت گاہ کربلا ہے۔ ہم ان ماؤں کے بچے ہیں کہ جنہوں نے اپنے دودھ میں شہادت کا درس گھول کر ہمیں پلایا ہے۔ ہم وہ قوم ہیں کہ پانچ وقت نماز میں ہم خاک کربلا کو سامنے رکھ کر اپنے دل میں شوق شہادت بھرتے رہتے ہیں۔ جس قوم کی آرزو شہادت ہو وہ کبھی موت سے نہیں ڈرتی۔ بخدا اگر امریکہ نے اس طرح کے حملے کیے یا امریکہ کے پٹھوؤں نے اس طرح کے حملے کیے ہماری تو بات چھوڑ دو ہمارے بچے بلکہ ہماری خواتین اپنے مکتب اور اسلام و قرآن کی حفاظت کے لیے قربانی کے لیے میدان میں آئیں گی۔
اس لیے میں آپ کی خدمت میں عرض کروں گا کہ ہم سب کا شرعی فریضہ ہے کہ ایسے مواقع پر اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کریں۔ مختلف پروگراموں کے ذریعے خطوط کے ذریعے اور دوسرے وسائل کے ذریعے امریکہ کو ہم یہ سمجھائیں کہ جس طرح اسلامی جمہوری ایران میں اسلام کے پاسدار اسلام کی حفاظت کے لیے قربانی کے لیے تیار ہیں یہاں پر ہم بھی اسلامی انقلاب کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ ہم اپنے قائد اور اپنے رہبر عظیم الشان نائب امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف اور امام امت خمینی عظیم روحی لہ الفداء کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ہم صرف آپ کے امر کے منتظر ہیں۔ جب بھی آپ امر فرمائیں گے جس وقت بھی آپ ہمیں بلائیں گے ہر وقت ہم اسلام کی حفاظت کے لیے اپنا خون دینے کے لیے تیار ہیں۔
خلاصہ کلام
خلاصہ یہ ہوگا کہ آپ شیعہ بھی ہیں اور شیعہ ہونے کی حیثیت سے ہمارے جتنے بھی فرائض ہیں، جتنے مطالبات ہیں ان کے منوانے کے لیے ہمیں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہونا چاہیے ہم مسلمان ہیں اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے بین الاقوامی سطح پر کفر جہانی کے خلاف جہاد کے لیے بھی ہمیں تیار ہونا چاہیے اور پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ہمیں ہمارے جتنے بھی حقوق ہیں خواہ سیاسی ہیں خواہ وہ اجتماعی ہیں خواہ جو بھی ہوں ان کے لینے کے لیے بھی ہمیں تیار ہونا چاہیے چونکہ میں بار بار عرض کرتا ہوں کہ سیاسی مسائل مذہبی مسائل سے جدا نہیں اور مذہبی مسائل سیاسی مسائل سے جدا نہیں۔ آخر میں میں آپ بھائیوں کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے موقع دیا کہ اس مبارک محفل میں میں آپ کے مبارک اور نورانی چہروں کی نزدیک سے زیارت کرسکوں۔
وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَا تُہُ


