ایک اجتماع سے خطاب


١٩٨٦


کراچی
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُلِلّٰہِ قَاسِمِ الْجَبَّارِیْنَ مُبِیْرِالظَّا لِمِیْنَ مُدْرِکِ الھَارِبِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَبِی الْقَاسِمِ مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّا ھِرِیْنَ الْمَعْصُوْمِیْنَ وَصَحْبِہِ الْمُنْتَجَبِیْنَ وَ بَعْدُ فَقَدْ قَالَ الْعَظِیْمُ

اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

وَلَاتَھِنُوْا وَلَاتَحْزَ نُوْا وَاَ نْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ (آل عمران۔ ۱۳۹)

خراجِ تحسین

اے کراچی کے غیور نوجوانوں! اے کلمۂ حق کے فرزندوں! اے لشکرِ حسینی کے سربازوں! اے مکتبِ امام صادقؑ کے شاگردوں! اے فقہ جعفریہ کے پاکستان میں نافذ کرنے والو! اے میرے عزیز بھائیوں اور محترم بہنوں! تم سب پر میرا سلام ہو۔
میں اپنے احساسات کا اظہار کن الفاظ میں کروں، میرے پاس آپ کے ان جذبات و احساسات کا جواب دینے کے لیے الفاظ نہیں ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آج دین و مذہب اور حق کی سر بلندی کے لیے آپ کے جذبات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ جن کی ترجمانی الفاظ کے ذریعے ممکن نہیں اور یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ جسے درک کیا جا سکتا ہے۔

اے علیٔ اطہر! اے علیٔ حجتِ حق! اے علی آیتِ عظیمِ خدا! اے علی مشکل کشاء! آپ اپنے دور میں کوفے کے لوگوں سے شکوہ کرتے تھے کہ جب آپ انہیں گرمیوں میں جہاد کے لیے نکلنے کو کہتے تو وہ شدید گرمی کا بہانہ کرتے اور سردیوں میں کہتے تو وہ سردی کا بہانہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ذرا ٹھہر جائیں کہ سردی ختم ہو جائے اور گرمی شروع ہو جائے تو اس وقت جہاد کے لیے نکلیں گے۔ اے علیٔ حق! آؤ اور آج کراچی کے نوجوانوں کو دیکھو کہ وہ آج آپ کے نام اور آپ کے مکتب کی حفاظت کے لیے نہ گرمی سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی انہیں سردی کا خیال ہے۔ ہر جگہ علیؑ علیؑ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ اے علیٔ اطہر، اے علیٔ حق! آج آپ ہمارے جوانوں کے احساسات کو دیکھ رہے ہیں اور ملاحظہ فرما رہے ہیں۔

منکرِ علی علیہ السلام شیعہ نہیں ہو سکتا

اے علیؑ! آج کچھ لوگ یہ سازش کر رہے ہیں اور ہمارے معصوم جوانوں کے ذہن میں یہ ڈالنا چاہتے ہیں کہ شیعوں میں کچھ افراد ایسے ہیں جو یا علیؑ کے منکر ہیں تو پھر وہ کس طرح آپ کی شفاعت کے امیدوار ہیں؟ وہ تو پھر آپ کا شیعہ ہی نہیں ہو سکتا۔
سن لو! آج اس مجلس میں ہم علیؑ کا نعرہ لگاتے ہیں، اس سے وہ سارے پراپیگنڈے اور سازشیں باطل اور ختم ہو جائیں گی۔ میں کہتا ہوں کہ شیعوں میں کوئی ایسا نہیں جو علیؑ کا منکر ہو۔ اگر شیعوں میں کوئی علیؑ کے نعرے کا منکر ہو تو ہم اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ البتہ یہاں میں یہ عرض کروں گا کہ آپ میرے لیے ہرگز نعرے نہ لگائیں، میں ان کی اہلیت نہیں رکھتا۔ آپ نعرہ لگانا چاہتے ہیں تو اپنے مولا اور آقا امام زمانہؑ کے لیے نعرے لگائیں اور پھر ان ائمہؑ کے وارث، امام زمانہؑ کے نائب برحق، خمینیٔ بت شکن کے لیے نعرے لگائیں جس نے آپ کو اور ہمیں یہ جرات دی ہے کہ ہم اپنے حق کے لیے میدان میں نکل آئیں۔
اے حسینِ مظلوم! اے عزیز زہراءؑ! اے سید مظلومان! اے سالارِ شہیدان! کربلا میں عاشورا کے دن ہمارے نوجوان، بوڑھے، بچے اور ہماری خواتین موجود نہیں تھیں کہ آپ کے استغاثہ ’’ھَلْ مِنْ نَّاصِرٍ یَّنْصُرْنَا‘‘ پر لبیک کہتے لیکن آج ہمارے نوجوانوں، بوڑھوں اور بچوں نے آپ کے استغاثے پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان کے چپے چپے پر آپ کی عزاداری برپا کر رکھی ہے اور جو بھی اس سے منع کرے گا اسے اپنے قدموں سے روندتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے۔ اے حسینؑ! اگر عاشورا کے دن ہمارے جوان آپ کے قدموں میں اپنے آپ کو نثار نہیں کر سکے تو آج وہ کراچی کی سرزمین پر آپ کے نام پر اپنا خون بہا رہے ہیں اور انہوں نے اپنے خون سے اس سرزمین پر یہ لکھ دیا ہے کہ ہم سر تو دے سکتے ہیں مگر عزاداری امام حسینؑ کو چھوڑ نہیں سکتے۔

اہل پاکستان کے عزم اور حوصلے

اے خمینی عظیم! اے خمینیٔ کفر شکن! اے خمینیٔ کوبندۂ شرق و غرب! اے وارثِ علی اطہرؑ! اے نائبِ بر حقِ امام زمانؑ! اگر آپ نے ایران کی سرزمین پر اسلام کا نعرہ بلند کیا ہے تو ہمارے نوجوانوں نے بھی پاکستانِ اسلامی میں اسلام کو نافذ کرنے کا عزم کر لیا ہے۔
اے خمینیؒ! اگر آپ نے یوم خواتین کے موقع پر مسلمان خواتین سے حضرت فاطمہ زہراءؑ کی سیرت پر چلنے کی اپیل کی ہے تو پاکستان میں ہماری بہنیں بھی آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان کے اندر سیرت فاطمہ زہراءؑ کو اپنانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔
اے خمینی عزیز! اگر آپ نے ایران میں جوانوں سے کہا ہے کہ وہ مساجد کو آباد کریں کیونکہ مساجد ہی ہمارے مورچے ہیں تو پاکستان کے نوجوانوں نے بھی آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مساجد کو سنگر (مورچہ) بنایا ہے اور معارف اسلامی سیکھنے کے لیے مساجد کی طرف دوڑ آئے۔
اے خمینی عظیم! اگر آپ نے اتحاد بین المسلمین کی خاطر یوم القدس کا اعلان کیا ہے تاکہ قبلۂ اول آزاد ہو جائے تو پاکستان کے جوانوں، بوڑھوں اور مستورات نے آپ کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے یوم القدس منایا اور مرگ بر امریکہ، مرگ بر روس اور مرگ بر اسرائیل کے نعرے لگائے۔

اے قائد مرحوم! اے مفتی عظیم! اے مفتی جعفر حسین! جس مقصد کے لیے آپ نے اس ضعیفی میں پاکستان کے گوشے گوشے کا سفر کیا اور تکلیفیں اٹھائیں اور آپ نے اس عظیم مشن کو شروع کیا آج کراچی کے جوان، بوڑھے، بچے، خواتین اور علماء سب اس اجتماع میں اپنی زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ اے قائد مرحوم! آپ سکون سے اپنی قبر میں آرام فرمائیں، ہم کبھی آپ کے مشن کو نہیں بھولیں گے۔ ہم یہاں شہید فقہ جعفریہ کی خدمت میں بھی یہ عرض کریں گے کہ اے محمد حسین شاد! اے شہید فقہ جعفر یہ! جس مقصد کے لیے آپ نے اسلام آباد کی سرزمین پر اپنا خون دیا تھا، آج ہمارے نوجوانوں نے عزم کر رکھا ہے کہ ہم آپ کے خون کو ضائع نہیں ہونے دیں گے اور اس مقصد کی تکمیل کریں گے بلکہ ہم آپ سے یہ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے دن گزرتے جائیں گے، آپ کا خون اتنا ہی رنگ لاتا جائے گا۔ ہمیں اس کی پرواہ نہیں کہ کون کیا کہے یا شریعت بل سے کوئی فقہ جعفریہ کو فراموش کر دے یا اس کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل بیان دے کہ ہم کسی کو عشر و زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار نہیں دیں گے۔ یہ جو بولتے ہیں، انہیں بولنے دیں، ہم ان کے فیصلوں کو قانونی نہیں سمجھتے۔ جب ان کے اندر ہمارا نمائندہ ہی نہیں تو ہم کس طرح ان کے فیصلے کو مان لیں۔

ہم نے تو پہلے سے طے کیا ہے اور چھ جولائی کو ہمارے شہید نے اپنے خون کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں کہ شیعوں کے لیے پاکستان میں صرف اور صرف فقہ جعفریہ ہی نافذ ہو گی نہ کہ کوئی اور چیز۔ خدا شاہد ہے کہ آپ کے جذبات و احساسات کو دیکھ کر میں اپنے نفس کو خطاب کرتا ہوں کہ اگر تم نے ان علماء، نوجوانوں اور ان بہن بھائیوں کے ساتھ کہ جو اس پختہ عزم کے ساتھ آگے قدم بڑھا رہے ہیں، چلنے میں سستی کی تو یہ قافلہ تو خدا کی طرف بڑھ جائے گا اور تم پیچھے رہ جاؤ گے۔ خدا ہمیں توفیق دے کہ آپ کی توقعات کے مطابق آپ کا چھوٹا سا خادم اور خدمت گزار صحیح معنوں میں آپ کی خدمت کر سکے۔ میں نے تو پہلے دن ہی سے اپنے آپ سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر اس راہ میں اور اس مقصد کی خاطر میرا خون اور میرا سب کچھ کام آئے تو میں ہر گز دریغ نہیں کروں گا۔ اگر میری زندگی میں کوئی مثبت نقطہ نہیں ہے تو میرا یہ ناقابل خون اسلام کی خدمت کا ذریعہ بن جائے اور محمد و آل محمد علیہم السلام کے سامنے سرخرو ہو جاؤں چونکہ آپ اس گرمی میں سفر کی تکالیف برداشت کر کے آئے ہیں اور یقیناً تھکے ہوئے ہوں گے، اس لیے میں اس سے زیادہ آپ کو مزاحم نہیں ہوتا۔
ان شاء اللہ میں چند دن آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، ہماری جتنی بھی مشکلات ہیں ان سب کے متعلق آپ سے گفتگو کریں گے۔ آخر میں آپ سب حضرات کا بالعموم اور علماء کا بالخصوص شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اسی طرح جتنی انجمنیں ہیں اور اگر نام لے لوں تو ممکن ہے کہ بعض رہ جائیں اور ناراض ہو جائیں نیز اپنی بہنوں اور مستورات کا، آپ سب کا جنہوں نے مختلف طریقوں سے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کیا، میں آپ سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اگر آپ ہمارے ساتھ رہے تو وہ دن دور نہیں، جب ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں اور اپنے حقوق لے کر چین سے دم لیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

مساجد ہمارے مورچے ہیں، جہاں انسان اپنے رب کے حضور تذلل اور خشوع و خضوع کرتا ہے

شہید عارف حسین الحسینیؒ

قرآن کہتا ہے کہ مومن ہونے کا مطلب ہے سربلندی اور سرفرازی۔
مومن کا مقصد واضح ہوتا ہے، اس لیے وہ کبھی سست نہیں پڑتا۔

شہید عارف حسین الحسینیؒ

ایک اسلامی خاتون کو شریعت اسلامی، تعلیمات اہل بیتؑ اور فقہ جعفریہ کا پابند ہونا چاہیے

شہید عارف حسین الحسینیؒ

اور ہماری رگوں میں بھی وہی خون جاری ہے جو ایرانی اور دیگر مسلمانوں کے بدن میں جاری ہے۔ اگر وہ سامراج کے خلاف لڑ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں لڑ سکتے؟

شہید عارف حسین الحسینیؒ

  تازہ مضامین