عزاداری کی بے حرمتی کے واقعے پر خطاب


١٩٨٦

اسلام آباد، پاکستان

یوم سیاہ ۔ کیوں؟

ہم یوم سیاہ منا رہے ہیں کیوں اور کس کے خلاف؟ ہم اس لیے یوم سیاہ منا رہے ہیں کہ ہم پاکستان کے شہری ہوتے ہوئے بھی پاکستان کے اندر رہ کر محروم و مظلوم ہیں۔ ہم نے پاکستان کے بنانے میں اپنے خون کی قربانی دی، اس کے باوجود ہمیں دوسرے درجے کے شہری بنانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

ہم اس لیے یوم سیاہ منا رہے ہیں کہ پاکستان کے بنانے میں ہمارا مال اور ہمارا خون صرف ہوا، پھر کیوں اس مملکت اسلامی میں اسلام کے نام پر فقہ جعفریہ کو نظرانداز کیا جا رہا ہے؟

ہم یوم سیاہ اس لیے منا رہے ہیں کہ یہ انتظامیہ جو اسلامی نظام لانے کی دعوے دار ہے، کیوں مملکت میں سینما، فحشاء اور شراب وغیرہ پر تو پابندی نہیں، لیکن حسین ابن علی علیہ السلام کے نام پر عزاداری کرنے اور جلوس نکالنے پر پابندی عائد کر رہی ہے؟

ہم اس لیے یوم سیاہ منا رہے ہیں کہ یہ وہ صدی ہے کہ جس میں ہر کسی کو اپنے اپنے عقیدے کے ساتھ زندگی گزارنے کا پورا پورا حق ہے۔ اور جیسا کہ آپ کو مولانا صاحب نے بتایا کہ اس وقت انگلستان کفر کا گہوارہ ہے، وہاں پر بھی مذہبی مراسم پر پابندی نہیں، لیکن یہ حکومت جو اپنے آپ کو ایک اسلامی حکومت سمجھتی ہے، اسلام سے کوسوں دور ہے۔ یہ امام مظلوم علیہ السلام کے جلوس پر پابندی عائد کر رہی ہے۔

ہم یوم سیاہ منا رہے ہیں ان غنڈوں کے خلاف جو اپنے بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر پاکستانِ اسلامی میں سنّی اور شیعہ بھائیوں کے درمیان اختلاف کے بیج بو رہے ہیں۔

ہم یوم سیاہ منا رہے ہیں ان شیطانی اور طاغوتی طاقتوں کے خلاف جو اس امید پر بیٹھے ہیں کہ سنّی شیعہ فسادات کر کے پاکستان کو نقصان پہنچائیں گے۔

ہم یوم سیاہ اس حکومت اور انتظامیہ کے خلاف منا رہے ہیں کہ جس نے نہ صرف یہ کہ کوئٹہ کے نہتے عزاداروں کی حفاظت نہیں کی بلکہ خود بھی بغیر کسی اشتعال کے ان پر حملہ آور ہوئی۔

ہم کراچی کے فسادات ہوں یا قصور کا دلخراش واقعہ ہو، خواہ وہ کوئی سا واقعہ ہو، ہم ان سب میں حکومت کو شریک اور سہیم سمجھتے ہیں۔ اگر حکومت اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتی ہے اور کہتی ہے ہم فسادات میں شریک نہیں ہیں، چلو ملتان، سرگودھا اور مانسہرہ کے فسادات میں تو اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے سکتی ہے، لیکن کراچی کے فسادات سے وہ کس طرح اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے سکتی ہے؟

جب کہ اس حکومت نے ان لوگوں کو گرفتار کر کے ان پر تشدد کیا جن کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا اور وہ بیہوش تھے۔ باقی جگہوں پر اگر وہ اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے بھی دے تو ظلم کے اس دلخراش واقعہ سے کس طرح اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے گی جہاں اس کی پولیس نے گھروں میں گھس گھس کر خواتین اور پردہ داروں کے سروں سے دوپٹے اتارے۔

میں یہاں پر ایک بات کروں گا کہ جب علی علیہ السلام کی بیٹی شریکۃُالحسین سلام اللہ علیہا یزید کے دربار میں یزید کے مظالم اور اس کی حقیقت کو عیاں کرنے کیلئے اسیر ہو کر شام گئیں تو وہاں پر علی علیہ السلام و زہراءؑ کی بیٹی امام حسین علیہ السلام کی بہن نے کیا خوب کہا تھا:

اَمِنَ الْعَدْلِ یَابْنَ الطُّلَقَائِ تَحْذِیْرُکَ اِمَائُکَ وَ سُوْقُکَ بَنَاتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ سَبَایًا (بحارالانوار، ج ۴۵، ص ۱۴۶)

اے یزید! اگر تم کل ملت کے سامنے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہو گے کہ میں نے حسین علیہ السلام کو شہید نہیں کیا، علی اصغر علیہ السلام کے گلو پر میں نے تیر نہیں چلوایا، عباس علیہ السلام کے بازو میں نے نہیں کٹوائے، تو کس نے یہ ظلم کیا ہے؟

پیغمبرﷺ کی نواسیوں اور علی علیہ السلام کی بیٹیوں کو نامحرموں سے بھرے اس دربار میں کون لے آیا ہے؟ یہ کام تم نے کیا ہے، اس کے مجرم تم ہو۔ اس سے تم اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔

میں بھی موجودہ حکومت سے یہی کہوں گا کہ اسلام آباد میں آئی-ٹین کا واقعہ کس نے کیا؟ کیا وہ تمھارے افراد نہیں تھے؟

یہاں تمہاری پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور تمہاری پولیس نے ہی گھروں میں داخل ہو کر مستورات کی بے حرمتی کی، دروازے اور شیشے توڑ دیے، گالیاں دیتے رہے۔ اور صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ کی پولیس نے اور آپ کے افراد نے حسین مظلوم علیہ السلام کے نام پر بچھائی گئی صفوں اور شامیانوں کو نذر آتش کردیا۔

اگر تم اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھو گے تو آئی-ٹین کے واقعہ سے کس طرح اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دو گے؟

اتحاد بین المسلمین ۔ مسلمانوں کی کامیابی کا راز

میرا دوسرا خطاب اپنے سنی بھائیوں سے ہے کہ ہم پہلے بھی کہتے تھے اور اب بھی کہتے ہیں کہ ہم رہبر عظیم الشان خمینی عظیم روحی لہ الفدا کی قیادت پر فخر کرتے ہیں۔ وہ عظیم انسان جس نے آج مسلمانوں کی کامیابی کا ذریعہ اتحاد بین المسلمین قرار دیا۔

اور وہ لوگ جو سنی شیعہ اختلافات کو ہوا دیتے ہیں، ان کو امام امت نا سنی سمجھتے ہیں نا شیعہ، بلکہ ان کو غیر کا ایجنٹ سمجھتے ہیں۔ ہم بھی انہی کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ ہماری سنیوں کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے۔ وہ ہمارے بھائی ہیں۔ ہم دونوں کا دشمن امریکا، روس، اسرائیل اور بھارت ہیں۔

ہم صرف زبان سے نہیں کہتے کہ سنی شیعہ بھائی بھائی ہیں بلکہ ہم عمل میں بھی خود اس پر عمل پیرا ہیں۔

ہم آئندہ نزدیک ایک اتحاد بین المسلمین کانفرنس بلا رہے ہیں جس میں علمائے اہل سنت و الجماعت اور علمائے شیعہ شرکت کریں گے اور اتحاد بین المسلمین کے موضوع پر اور دشمن مشترک یعنی امریکا و روس کے خلاف تقاریر کریں گے اور آپس میں مل کر اتحاد و اخوت سے رہیں گے۔

ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارا یہ یوم سیاہ اور ہمارے یہ اجتماعات اپنے سنی بھائیوں کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہم دونوں کا دشمن مشترک ہے۔ اور ہم دونوں مل کر اس مشترک دشمن سے مقابلہ کریں گے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹ جائیں۔ نہیں نہیں۔ یہ قومی سطح پر ہمارا مطالبہ ہے۔ نفاذ فقہ جعفریہ ہمارا مطالبہ ہے۔ ہمارے دوسرے حقوق ہیں، ان کے باوجود ہم اپنے سنی بھائیوں سے اتحاد کے خواہاں ہیں۔

دشمن مشترک کے خلاف اتحاد، یعنی سنی سنی بن کر، شیعہ شیعہ بن کر، اپنے اپنے مسلک اور فقہوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دشمن مشترک کے مقابلہ میں متحد ہوجائیں۔

حقیقی مومن

تیسری قسم کا آدمی وہ ہے جو ایک معاشرے میں رہتے ہوئے اس معاشرے کے ہم آہنگ نہ ہو بلکہ اس کے دل میں ہر وقت رضایتِ خدا ہو، رضایتِ اسلام ہو، رضایتِ رسول ﷺ ہو، رضایتِ امام زمان علیہ السلام ہو۔ وہ ہر وقت سوچتا ہے کہ اس وقت میرا شرعی وظیفہ کیا ہے؟ میری شرعی ذمہ داری کیا ہے؟ اس وقت قرآن مجھے کس چیز کا حکم دیتا ہے؟ امام زمان علیہ السلام مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟

وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہ، وَالْمُؤْمِنُوْنَ (توبہ ۱۰۵)

وہ خواہ امامباڑے میں جاتا ہے، کہیں بھی جاتا ہے یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ خدا، رسول ﷺ اور امام زمان علیہ السلام اسے دیکھتے ہیں۔

سپرپاور خدا ہے

ہم تو مسلمان ہیں، ہم کہتے ہیں اللہ اکبر، یعنی مسلمانوں کی نظروں میں سپر طاقت اللہ ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ سپر طاقت اللہ ہے۔

امیرالمؤمنین علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں: “عَظُمَ الْخَالِقُ فِي أَعْيُنِهِمْ فَصَغُرَ مَا دُونَهُ فِي أَعْيُنِهِمْ”۔

اللہ کی عظمت کے سامنے انھیں کفار اور بڑی بڑی طاقتیں چھوٹی نظر آتی ہیں۔

ہم تو نعرۂ حیدری لگانے والے ہیں، علی علیہ السلام کو مشکل کشا ماننے والے ہیں۔ ہم خدا سے دن میں پانچ مرتبہ واجب نمازوں میں عہد کرتے ہیں، تو پھر افسردگی کیسی؟

امام زمانہ علیہ السلام کا نوحہ

امام زمانہ علیہ السلام اپنے جد کی مصیبتوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں:

وَلَاَبْکِیَنَّ عَلَیْکَ صَبَاحًا وَمَسَاحًا وَلَا نَدْبَنَّ عَلَیْکَ بَدْلَ الدُّمُوْعِ (بحار الانوار، ج ۱۰۱، ص ۳۲۰)

اے حسین علیہ السلام! اگرچہ میں کربلا میں موجود نہ تھا، لیکن جب تک میں زندہ ہوں گا، آپ کی مصیبت میں، آپ کی عزاداری میں آنسوؤں کی جگہ خون گریہ کروں گا۔

 

مساجد ہمارے مورچے ہیں، جہاں انسان اپنے رب کے حضور تذلل اور خشوع و خضوع کرتا ہے

شہید عارف حسین الحسینیؒ

قرآن کہتا ہے کہ مومن ہونے کا مطلب ہے سربلندی اور سرفرازی۔
مومن کا مقصد واضح ہوتا ہے، اس لیے وہ کبھی سست نہیں پڑتا۔

شہید عارف حسین الحسینیؒ

ایک اسلامی خاتون کو شریعت اسلامی، تعلیمات اہل بیتؑ اور فقہ جعفریہ کا پابند ہونا چاہیے

شہید عارف حسین الحسینیؒ

اور ہماری رگوں میں بھی وہی خون جاری ہے جو ایرانی اور دیگر مسلمانوں کے بدن میں جاری ہے۔ اگر وہ سامراج کے خلاف لڑ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں لڑ سکتے؟

شہید عارف حسین الحسینیؒ

  تازہ مضامین