جعفریہ کونسل سے خطاب
قم ایران
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ (رعد۔۱۱)
تنظیمی میدان میں اخوت کا پیغام
میرے لیے یہ بات خوشی اور مسرت کا باعث ہے کہ اس وقت میں آپ برادرانِ عزیز، فضلاء اور طلباء کرام کی خدمت میں حاضر ہوں۔ جو نکات آپ نے اٹھائے ہیں ان میں جہاں تک دوسری تنظیموں اور طلاب کے ساتھ برتاؤ کا سوال ہے تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ہم جب کوئی تنظیم بناتے ہیں تو اس طرح میدان میں آنا چاہیے کہ جو تنظیمیں موجود ہیں وہ تنظیمیں ہمیں اپنا مددگار و معاون سمجھ لیں نہ کہ اپنا دشمن۔ اگر ایک تنظیم نے ہمیں اپنا مددگار و معاون سمجھ لیا تو طبعی طور پر وہ مخالفت نہیں کریں گی اور اگر باہدف افراد ہیں تو وہ ساتھ بھی دیں گے لیکن اگر ہم یوں میدان میں آئے کہ دوسری تنظیم والوں کو یہ احساس ہو کہ یہ تو ہمیں ختم کرنے کے لیے آئے ہیں، یہ ہمارے دشمن ہیں تو طبعی بات ہے کہ وہ مخالفت کریں گے جس کے نتیجے میں تصادم ہوگا اور تصادم کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ وہ بھی اپنے مقصد سے پیچھے رہ جائیں اور آپ بھی اپنے مقصد سے پیچھے رہ جائیں اس لیے میں آپ برادرانِ عزیز اور علماء کرام سے یہ خواہش کروں گا کہ جتنی بھی تنظیمیں ہیں آپ ان سے ایسے روابط رکھیں کہ وہ کم از کم آپ کو دشمن نہ سمجھیں۔
تنگ نظری نقصان دہ ہے
دوسری بات یہ ہے کہ آپ کشادہ دلی سے کام لیں اور دوسروں کو برداشت کریں جس طرح آپ توقع رکھتے ہیں کہ دوسرے آپ کو برداشت کریں تو آپ بھی دوسروں کو برداشت کریں۔ دیکھیں! خداوند متعال نے کفار کو برداشت کیا ہے حالانکہ وہ اس کی ذات کے منکر ہیں اور اس کے دین کے مخالف ہیں۔ خدا کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ان کو ختم کردے۔ رسول اکرمﷺ نے مصلحت اسلام کی خاطر جیسا کہ آقا صاحب نے فرمایا کہ منافقین کو بھی رکھ لیا تھا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم یہ توقع رکھیں کہ دوسری تنظیمیں ہمیں تسلیم کریں تو ہمیں بھی انھیں تسلیم کرنا چاہیے اور انھیں برداشت کرنا چاہیے۔ تنگ نظری کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم میں کشادہ دلی ہونی چاہیے۔ دوسرا جب آپ خود فرماتے ہیں کہ تحریک پوری قوم کی تنظیم ہے اور وہ کسی خاص صنف اور گروہ کے ساتھ مختص نہیں ہے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے بھی یا تو آپ کے عضو ہیں یا حامی و مددگار ہیں۔ اگر ایک تنظیم کے ساتھ آپ کو کوئی اختلاف ہے تو ایک اختلاف سلیقہ سے ہوتا ہے اور ایک نظریاتی اختلاف ہوتا ہے فرض کریں کہ آپ کسی تنظیم کے ساتھ نظریاتی اختلاف رکھتے ہیں تو نظریات کو ہمیشہ نظریات کے ذریعے یا تو اثبات کیا جاتا ہے یا ان کی نفی کی جاتی ہے اور زور و تشدد کے ذریعے آج تک کوئی تنظیم دبی نہیں البتہ جب تک وہ دباؤ اور زور رہے گا وہ چیز دبی رہے گی لیکن جب آپ اس زور و دباؤ کو ختم کریں گے وہ پھر دوبارہ ابھر آئے گی۔
اس لیے میں آپ کو کبھی بھی یہ مشورہ نہیں دوں گا کہ اگر آپ کسی تنظیم کے ساتھ نظریاتی اختلاف رکھتے ہیں تو اس بناء پر اس کے ساتھ تصادم کا طریقہ اختیار کریں آپ کو تشدد کرنا زیب نہیں دیتا۔ ٹھیک ہے آپ کا تنظیم کے حوالے سے ان سے نظریاتی اختلاف ہے۔ اس کے علاوہ آپ جب آپس میں بیٹھیں تو محبت، احترام اور عزت کے ساتھ پیش آئیں اور اس کے علاوہ اگر اس قسم کی کوئی بات چھیڑ دی جائے تو اس کو بھی اخوت اور اسلامی حدود کے اندر کھلے دل کے ساتھ اور کشادہ دلی کے ساتھ سن لیں اور پھر دلیل کے ساتھ آپ انھیں اپنی بات پیش کریں لیکن خدانخواستہ تصادم ہو جائے یا بدمزگی پیدا ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسلام کے لیے بھی صحیح نہیں اور یہاں حوزہ کے حالات کے لیے بھی صحیح نہیں اور پھر آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے اثرات صرف یہاں تک محدود نہیں ہوتے بلکہ وہاں پاکستان میں بھی فوری طور پر ان کے اثرات پھیل جاتے ہیں تو جتنی بھی تنظیمیں ہیں آپ کو ان کے ساتھ اس طریقے سے روابط رکھنے ہوں گے کہ کسی قسم کی بدمزگی اور تصادم پیدا نہ ہو جائے یعنی آپ کی طرف سے زیادہ سے زیادہ محبت اور خلوص کا مظاہرہ ہو۔ میں نے عرض کیا کہ اگر کوئی بات ہو جائے تو آپ صرف دلیل سے بات کریں یہاں تک کہ آپ کوشش کریں کہ جس کا بھی آپ نام لیں چاہے جس کا بھی ہو احترام کے ساتھ لیں حتیٰ کہ یہ بھی نہ ہو کہ بعض افراد یہ خیال کریں فلاں تنظیم کا نام انھوں نے مثلاً اچھے طریقے سے نہیں لیا آپ ان کا نام بھی اچھے انداز میں لیں۔ انبیاء علیہ السلام اور آئمہ طاہرین علیہ السلام کا شیوہ بھی اور ہمارے لیے ان کی سنت بھی یہی ہے۔
امام صادق علیہ السلام کا شاگرد کون ہے؟
آپ نے سنا ہوگا کہ مفضل (جو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے خاص شاگرد تھے) جن کی کتاب کا نام توحید مفضل ہے وہ ایک لامذہب کے ساتھ بحث کرتے وقت اس کے ساتھ غصے ہوگئے۔ تھوڑا سا سخت لہجہ اختیار کیا تو اس نے فوراً کہہ دیا کہ بابا تم کیوں ایسا کرتے ہو؟ آپ کے استاد امام صادق علیہ السلام کے ساتھ تو ہمارے اچھے خاصے مباحثے ہوتے ہیں ہم ان سے جتنی بھی سختی کریں وہ سوائے محبت، دلیل اور برہان کے کبھی غصے نہیں ہوئے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ امام صادق علیہ السلام کے شاگرد نہیں ہیں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ یہاں آپ کو چاہیے کہ اپنے آپ ان چیزوں کا بہت زیادہ پابند رکھیں یعنی کوئی بھی ایسا کام نہ کریں جو اخلاق اسلامی کی حدود سے باہر ہو۔ طلبہ کے ساتھ آپ اچھے روابط رکھیں۔ میں بھی کہتا ہوں اور آپ بھی کہتے ہیں کہ ہم طلبہ کے قریب نہیں ہیں ٹھیک ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہیے لیکن جس طرح ایک باپ اپنے بچے کا ولی اور سرپرست ہوتا ہے۔ تحریک تو اس طرح طلباء کی ولی نہیں ہے الحمد للہ یہاں تو شورائے سرپرستی بھی ہے اس کے علاوہ دیگر ادارے بھی ہیں اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو اسے قانونی طریقہ سے حل کریں۔ طلبہ کے ساتھ محبت سے پیش آئیں اور کوشش کریں کہ ان کے مسائل کو حل کریں ابھی خدانخواستہ اگر ہم طلبہ سے یہی انتظار رکھیں کہ ہمارا کوئی جلسہ جلوس اور کوئی پروگرام ہو تو وہ اس میں شرکت کریں لیکن اگر ان میں سے کسی بے چارے کا اقامت کا مسئلہ ہو یا کسی دوسرے کے گھر کا مسئلہ ہو یا درس کا مسئلہ ہو یا دوسری مشکلات ہوں تو اگر آپ ان کو حل نہیں کریں گے تو طبعی بات ہے کہ وہ کل آپ کے پروگراموں میں شرکت نہیں کریں گے۔ اس لیے آپ خود کوشش کریں کہ طلبہ کو جو مسائل ہیں آپ ان کے حل کے لیے کوشش کریں اگر حل ہوگئے تو بہت اچھے اور اگر حل نہ بھی ہو سکے تو کم از کم آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ بابا ہم بھی آپ کی طرح طالب علم ہیں اور جتنی ہماری استطاعت تھی اس کے مطابق ہم نے آپ کے لیے کام کیا ہے لیکن خدانخواستہ تشدد تک نوبت پہنچ جائے اور لڑائی جھگڑا ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے اس لیے کہ اس سے خود آپ کے لیے اور تحریک کے لیے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
دفتر کے بارے میں مجھے علم نہیں ہے اگر میں نے مناسب سمجھا تو آقائے ابراہیمی کے ساتھ اس موضوع پر بات کروں گا اور نہ صرف ہم بلکہ پوری قوم آپ سے یہ توقع رکھتی ہے کہ آپ اخلاق اسلامی کے پابند رہیں اور درس و تدریس میں مشغول رہیں۔ ہم خود طلبہ ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے طلبہ تعلیمی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے کمزور ہو رہے ہیں اور پاکستان میں ہمارے لیے یہ بہت بڑا نقصان ہوگا کیونکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ ہمارے طلبہ درس و تدریس اور اخلاق کے لحاظ سے ممتاز اور نمایاں ہوں اگر خدانخواستہ ہمارے طلباء اور فضلاء ایسے نہ ہوں تو بعض اوقات حکم شرعی صحیح نہ جاننے کی وجہ سے بعض اشتباہات کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر اخلاق اسلامی بھی نہ ہو جیسا کہ میں ابھی کہہ رہا تھا کہ ہم جو کچھ اس دنیا میں کرتے ہیں یہی ہمارے اعمال آخرت میں مجسم ہوتے ہیں یہ ہمارا عقیدہ ہے اب ہم جو کچھ بھی کریں گے آپ یقین کریں جب آپ معاشرے میں جائیں گے تو یہی سب کچھ معاشرے میں آپ کے سامنے مجسم ہوگا۔
دیہات کا ملا
احادیث میں بھی ہے کہ جو طالب علم طالب علمی کے زمانے میں بدعمل اور بداخلاق ہو تو خداوند متعال اسے مبتلا کرے گا اور بعض روایات میں ہے کہ اسے دیہات کا ملا قرار دے گا۔ دوسری طرف اگر آپ نے کوشش کی اور تقویٰ اختیار کیا خلوص کے ساتھ عمل کیا تو جب آپ معاشرے میں جائیں گے تو اس کا اچھا ثمر آپ کو ملے گا۔ اگر آ پ نے اس راہ میں زحمت برداشت کی ہے تو آپ کو اس زحمت کا صلہ ملے گا اگر آپ نے تمام وقت فضول گزار دیا جلسے جلوس کیے ایک دوسرے کے خلاف پمفلٹ بازی کی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جب آپ معاشرے میں آئیں گے تو سوائے بدبختی اور ہلاکت کے کچھ نہیں ملے گا۔ آپ نے دیکھا کہ کئی طلبہ بیچارے نجف میں نہ جانے کتنے سال رہے لیکن آج وہ مبتلا ہیں۔
شہیدؒ کی ایک خواہش
آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آ پ خوب محنت سے درس پڑھیں اور حصول تعلیم کے لیے خوب کوشش کریں اس کے علاوہ جعفریہ کونسل کے حوالے سے ہم آپ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ اگر آپ کے پاس وقت ہو جیسا کہ کل آپ نے اپنی تقریر میں بھی ان چیزوں کی طرف اشارہ کیا واقعاً ہم سمجھتے ہیں کہ قلم کے میدان میں ہم پاکستان میں بہت پیچھے ہیں۔ فضلاء تو ہمارے پاس بہت ہیں لیکن اہل قلم نہیں ہیں اگر طلباء یہاں پر مقالہ نویسی وغیرہ میں بھی مہارت حاصل کرلیں یا بعض کتابیں کہ جو قضاوت، زکوٰۃ یا حدود وغیرہ کے لحاظ سے ضروری سمجھی جاتی ہیں اور یہاں پر اس وقت کے مسائل کے حوالے سے جو کام ہو رہا ہے اس سلسلے میں بھی آپ کوشش کریں۔ اس قسم کی کتابیں یا ان کے تراجم کریں یا فقہ جعفریہ کے حوالے سے کوئی اور بنیادی کام کیا جائے۔ کیونکہ ہم تو دوسرے مسائل میں مبتلا ہیں۔ آپ کا تو معمول ہی یہی ہے آپ یہاں ان چیزوں پر کام کریں مثال کے طور پر فقہ جعفریہ میں ہم سکوں پر یا جو آج کل نوٹ وغیرہ ہیں، ان پر زکوٰۃ واجب نہیں سمجھتے، ان چیزوں پر تحقیق کریں اور اگر ہمارے علماء نے اس پر کچھ کام کیا ہے تو ان کو جمع کریں یا پھر جو اقتصادی مسائل درپیش ہیں مگر یہ اسی وقت ہے کہ جب یہ چیزیں آپ کے درس میں مخل نہ ہوں۔ اگر ان چیزوں کا آپ کو موقع ملے البتہ یہ ایک ایسا کام ہے جس کے لیے الحمد للہ لائبریریاں بھی موجود ہیں، کتابیں بھی موجود ہیں فضلاء بھی موجود ہیں جو سہولتیں آپ کو یہاں فراہم ہیں وہ سہولتیں وہاں فراہم نہیں ہیں اگر آپ یہ کام کرلیں تو جعفریہ کونسل کی جانب سے علمی حوالے سے یہ بہت بڑا کام ہوگا۔ یہ جو آپ نے فرمایا کہ طلبہ کا اقامہ نہیں ہے آج ہماری میٹنگ تھی جس میں ہم نے یہ طے کیا ہے کہ شورائے سرپرستی طلاب غیر ایرانی کے ساتھ جب ہماری میٹنگ ہوگی تو ہم اس مسئلے کو اٹھائیں گے کہ کس حد تک ہم اس میں کامیاب ہوسکتے ہیں کہ کن کن طلبہ کے اقامے نہیں ہیں اور کیوں نہیں ہیں اور کوئی ایسا طریقہ وضع کیا جائے کہ ان کو اقامے وغیرہ مل جائیں اور ان کے شہریت بن جائیں۔
سوال
جواب: نہیں آپ اپنے اعتراضات اور جو مسائل و مشکلات ہیں ہمیں دیں یہ جو آپ نے سوال کیا ہے کہ سندھ کی کابینہ کے مستعفی ہونے کے کیا علل و اسباب ہیں؟ اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ سیاست میں نہیں آنا چاہیے ہم نے کہہ دیا کہ سیاست تو ایسا مسئلہ ہے جس [کی اہمیت] کو بچہ بھی جانتا ہے تو انھوں نے کہا کہ اگر آپ کو سیاست میں آنا ہے تو یہ مروجہ سیاست، انتخابی سیاست (نہ کریں) اس پر بھی ہم نے کہا کہ دونوں طرح کی سیاست کو مد نظر رکھنا پڑے گا مثلاً انتخابات میں حصہ لینے سے ہمیں کتنے نقصانات ہیں اور کتنے فائدہ ہے اور نہ لینے سے بھی کتنا نقصان ہے اور کتنے فوائد، دونوں چیزوں کو ہمیں مد نظر رکھنا پڑے گا تو اس حوالے سے ہم نے ایک کمیٹی بنائی اس کمیٹی کو میں نے کہہ دیا تھا کہ آ پ دونوں طرح سے جائزہ لیں کہ اس کے کیا فوائد اور نقصانات ہیں اس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ سیاست میں تحریک کے پلیٹ فارم سے حصہ لے دوسرے یہ کہ نام وغیرہ تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں نام بھی یہی ہوگا۔ انتخابات جو آج شاید سندھ میں اور بلوچستان میں اور پنجاب اسمبلی میں میرا خیال ہے کہ کل ہوں گے چونکہ یہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہیں تو اس میں تحریک کا پلیٹ فارم استعمال کرنا غیر ضروری اور لغو ہے البتہ ہم ان افراد کی تائید کریں گے جو شیعوں کے مفاد کے لیے مفید ہوں، ضد سامراج ہوں، فرقہ واریت سے بالاتر ہوں ایسے افراد کو کامیاب بنانے کے لیے بھی تحریک کا پلیٹ فارم اور نام استعمال کیے بغیر ہم لوگ کوشش کریں گے۔
منشور کے بارے میں غلط مشہور کیا گیا ہے۔ یہ سب غلط افواہیں اور جھوٹ ہے سوائے کذب کے اور کچھ نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طریقہ سے لوگوں کو تحریک سے دور کردیں اور اس کے علاوہ ان کا کوئی اور مقصد نہیں۔ منشور اپنی جگہ پر باقی ہے کچھ علماء کے اس پر اعتراضات تھے اور ہم نے کہہ دیا کہ یہ حرف آخر نہیں ہے کسی کو اگر کوئی اعتراض ہے تو وہ ہمیں دے دیں ہم اسے دیکھیں گے کہ اگر ان کا وہ اعتراض صحیح ہے تو ہم اس میں ترمیم کریں گے اگر ان کا وہ اعتراض صحیح نہیں ہے تو انھیں یہ اعتراض نہیں کرنا چاہیے اور اس کے لیے ابھی ۱۸ تاریخ کو لاہور میں میٹنگ تھی چونکہ میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے میں نہیں جا سکا۔ سید ساجد علی شاہ کے ساتھ فون پر میں نے بات کی تھی اس کمیٹی کے ایجنڈے میں سے ایک نکتہ منشور کا مسئلہ تھا میں نے ان سے یہ کہہ دیا کہ جو بھی سپریم کونسل کے علماء ہیں اگر انھیں منشور پر کوئی اعتراض ہے وہ ہمیں لکھ کر بھیج دیں ہم نے جو کمیٹی بنائی ہے وہ اس پر غور کرے گی۔
باقی رہا قم سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء کے مستقبل کا فیصلہ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے لیے تو کوئی مشکل نہیں ہے لیکن طلباء کے لیے مشکل ہے وہ اس لیے کہ فرض کریں کہ میں چاہتا ہوں کہ بلوچستان کے اندر جو دیہات ہیں جہاں پر لوگ ان پڑھ ہیں اور جہاں شیعوں کے نکاح بھی سنی عالم پڑھتے ہیں اگر ان کا کوئی آدمی مر جائے تو ان پر نماز بھی سنی عالم پڑھتے ہیں میں تو چاہتا ہوں کہ اگر طالب علم قم سے فارغ ہوا ہے تو میں اس کو وہاں بھیجوں لیکن وہ طالب علم کہتا ہے کہ (فرض کریں) مجھے آپ پشاور یا کراچی میں جگہ دیں تو فرضاً اگر میں وہاں جگہ نہیں دے سکتا اور جہاں پر ہم ضرورت کا احساس کرتے ہیں وہاں وہ تیار نہیں ہے اور کہتا ہے کہ وہاں دیہات ہے مثلاً لیٹرین اور فلش سسٹم نہیں ہے پانی نہیں ہے یہ ہے، وہ ہے تو مسئلہ ان کی طرف سے ہے ہماری طرف سے نہیں ہے۔ اگر واقعاً کوئی طالب علم ایسا ہو کہ جو اپنی سہولت کو پیش نظر نہ رکھے بلکہ تبلیغ دین کو مد نظر رکھے تو ایسی جگہیں ہمارے پاس بہت ہیں۔ اس وقت تبلیغ دین کی ضرورت ہے اگرچہ مادی اور ظاہری لحاظ سے تو ان کو تکلیف ہو گی پیسوں کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے مثلاً دوسرے مدارس ان کو دو ہزار روپے دیئے جاتے ہیں تو ہم بلوچستان وغیرہ کے علاقوں میں کام کرنے والوں کو تین ہزار روپے دیں گے لیکن یہ کہ جو وہاں دیہات ہیں، پائپ میں پانی نہیں ہے تو شاید آپ کو لوٹا استعمال کرنا ہوگا، البتہ ہم کسی نہ کسی طرح لیٹرین بھی بنوا دیں گے پھر بھی بعض مشکلات تو وہاں پیش آئیں گی تو اگر طلباء قبول کرتے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ وہاں پر کچھ کام کیا جائے پاکستان میں آج کل کئی طلباء اس طریقے سے کام کر رہے ہیں مستقبل میں ہم مبلغین سے استفادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اب تو سید جواد بھی آئے ہیں ہم ان کے ذمہ لگائیں گے کہ وہ طلباء کو وہاں بلانے سے پہلے خود پروگرام مرتب کریں اور رابطہ قائم کرکے آپ کو اطلاع دے دیں۔
اللہم صلِّ علیٰ محمد وآل محمد


