جامعہ المصطفیٰ کےافتتاح کے موقع پر خطاب


١٩٨٤


لاہور
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی سَیِّدِ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَبِی الْقَاسِمِ مُحَمَّدٍ وَّعَلَی الْمَعْصُوْمِیْنَ مِنْ آلِہِ وَالْمُنْتَجَبِیْنَ مِنْ صَحْبِہِ وَالسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللہِ الصَّالِحِیْنَ وَاَمَّا بَعْدُ فَقَدْ قَالَ الْعَظِیْمُ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (حدید:۲۵)

ہمارے لیے یہ انتہائی خوشی کی بات ہے کہ آج ایک دینی درسگاہ جامعۃ المصطفٰی کا افتتاح ہو رہا ہے۔ پورے ملک سے خصوصاً علماء کرام یہاں تشریف لائے ہیں۔ یقیناً یہ محفل بہت بابرکت محفل ہے اور انشاء اللہ ہمارے معاشرے میں اس کے بہت اچھے اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ مجھ سے پہلے قبل از ظہر جید علماء نے بہترین اور مفید تقاریر کی ہیں، اس لیے میں زیادہ مزاحم نہیں ہونا چاہتا۔ حالاتِ حاضرہ اور مدرسے کے افتتاح کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ دیر آپ کو زحمت دوں گا۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ
ہم نے اپنے رسولوں کو نشانیوں اور واضح دلائل کے ساتھ مبعوث کیا اور اس کے ساتھ ہی ہم نے ان پر کتاب اور میزان بھی نازل کیے۔ کس لیے؟ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ تاکہ لوگ قسط و عدل کے ساتھ قیام کریں۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے فلسفے میں سے ایک یہ ہے کہ وہ معاشرے میں عدالتِ اجتماعی کو رائج کریں۔ اس میں شک نہیں کہ رسول اکرم حضرت محمدﷺ کی وفات کے بعد نبوت ختم ہو گئی اور ان کے بعد امامت کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ ذمہ داری ائمہ طاہرین علیہم السلام کے کندھوں پر تھی۔

علماء کی ذمہ داریاں

حدیث نبوی ہے کہ: اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاء پس اس حوالے سے جو رسالت انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے ذمہ تھی، وہی آج علماء کے ذمہ ہے۔
آج یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں ظلم و استبداد اور برائیوں کے خلاف قیام کریں اور حق و حقیقت کی بالادستی اور معاشرے میں عدالتِ اجتماعی کے قیام کے لیے آگے آئیں۔ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں:

لَوْ لَاحُضُوْرُ الْحَاضِرِ وَ قِیَامُ الْحُجَّۃِ بِوُجُوْدِ النَّاصِرِ وَ مَا اَخَذَ اللہُ عَلَی الْعُلَمَاءِ اَنْ لَّا یَقَارُّوْا عَلٰی کِظَّۃِ الظَّالِمِ (نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج:۱۔ص۔۲۰۲)

اگر لوگ میدان میں حاضر نہ ہوتے اور حامی و مددگار کی موجودگی کے علاوہ خدا نے علماء سے یہ عہد نہ لیا ہوتا کہ وہ ظالم کی پر خوری اور مظلوم کی گرسنگی (بھوک) پر سکوت و خاموشی اختیار نہ کریں تو میں کبھی خلافت کے نزدیک ہی نہ جاتا۔

یعنی مولا خلافت کو قبول کرنے کی علت بیان فرما رہے ہیں کہ جب میں نے دیکھا کہ معاشرے میں مختلف طبقات پیدا ہو رہے ہیں۔ امیر روز بروز امیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور وہ اس قدر کھاتے ہیں کہ پر خوری کی وجہ سے مختلف امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں فقیر اس قدر فقیر ہوتا جا رہا ہے کہ وہ کھانے کے ایک لقمے تک کو ترستا ہے۔ جب معاشرے میں اس قسم کی طبقاتی تفاوت پیدا ہو جائے تو امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خدا نے علماء سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ ایسی صورتحال میں خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھیں بلکہ وہ ظلم کے خلاف قدم اٹھائیں۔

ایک اور جگہ امیرالمومنین علیہ السلام نے ابن عباس ؓ سے دریافت فرمایا کہ اے ابن عباس! تمہارے نزدیک اس پھٹی پرانی جوتی کی قیمت کیا ہوگی؟ اس نے کہا مولا! یہ تو بالکل بے قیمت سی چیز ہے، اس کی کیا قیمت ہو سکتی ہے؟ تو مولا نے فرمایا کہ قسم بخدا میرے نزدیک یہ حکومت اور خلافت اس کی قدر و قیمت اس جوتی کے برابر بھی نہیں، اگر میں نے اس حکومت کو قبول کر رکھا ہے تو محض اس لیے کہ حق زندہ کروں اور باطل کو مٹا دوں!
برادرانِ اسلامی! اگر واقعاً یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ظلم کے خلاف بات کریں، عدالت اجتماعی کے لیے قدم اٹھائیں تو یہاں مسئلہ نظام کا آتا ہے۔ ہم اگر لوگوں کو کہیں کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، اس طرح چند ایک گناہان کبیرہ لوگوں کو بتا دیں اور دو چار مسائل سنا دیں تو ہم خوش نہ ہوں کہ ہم نے اپنا فریضہ ادا کر دیا ہے۔

اجتماعی فرائض

اگر ہم اپنے اجتماعی فرائض میں اسلامی نظام اور عدالت اجتماعی کے لیے کام نہیں کریں گے تو یہ جان لیں کہ ہم نے صد در صد اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا۔ اگر ایک آدمی نماز تو پڑھے لیکن وہ روزہ نہ رکھے تو آپ اسے کبھی مومن کامل قرار نہیں دیتے۔ اسی طرح اگر ہم اپنی انفرادی ذمہ داریوں اور انفرادی فرائض کو صحیح طور پر بجا لائیں لیکن اجتماعی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر دیں اور اس طرف توجہ نہ کریں کہ اس وقت ہم پر کون سا نظام مسلط کیا گیا ہے اور اس وقت ہمارے معاشرے میں کیا ہو رہا ہے۔ دشمنانِ اسلام ہمارے جوانوں کو منحرف کرنے کے لیے کیا سازشیں کر رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے صحیح طور پر اور سو فیصد اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا۔

آج جب دنیا کے ایک گوشے میں صحیح اسلامی انقلاب آیا ہے تو یقیناً علماء کی ذمہ داریاں اس سے اور زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ آج کا جوان یہ سمجھنا چاہتا ہے کہ کیا واقعاً ہمارے ہاں اسلامی نظام قائم ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اور کیا ہم اپنی سرزمین سے سامراج کا جنازہ نکال کر یہاں عدالتِ اجتماعی بر قرار کر سکتے ہیں یا نہیں؟ آج جوان ہم سے یہ چاہتے ہیں لہٰذا ہمیں منبر پر آکر ان کو ایسے مسائل میں نہیں الجھانا چاہیے کہ جو ان کے دینی و دنیاوی درد کا علاج نہ ہو۔
برادرانِ عزیز! آج ہر جگہ پر نوجوان نسل اسلام کی طرف متوجہ ہو چکی ہے، یہاں تک کہ روس کے مسلمان بھی آج اسلام کی طرف متوجہ ہو چکے ہیں۔ آج جب اس سلسلے میں زمین ہموار ہے اور اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہ کریں تو کل اگر خدا نخواستہ یہ چیز ختم ہو جائے اور دوبارہ اسلام دشمنوں کی حکومت آجائے تو پھر ہم خدا کے سامنے کیا جواب دیں گے! لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اس مسئلے کی طرف توجہ کریں کیونکہ یہ لوگ اسلام چاہتے ہیں۔

برادرانِ عزیز! اگر آپ اسلامی نظام چاہتے ہیں جو قرآن نے پیش کیا ہے اور جس کے لیے انبیائے کرام نے قربانیاں دی ہیں، جس کے لیے رسول اللہ ﷺ اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے قربانیاں دی ہیں تو اگر ہم اس اسلام کے حقیقی معارف کو پیش نہ کریں تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ آج استعمار خوب سمجھ چکا ہے کہ مسلمان اسلامی نظام چاہتے ہیں پس اگر ہم انہیں اسلامی نظام نہیں دیں گے تو استعمار دین کے نام پر انہیں دین کی بگڑی ہوئی شکل پیش کرے گا۔ اس لیے کہ جب انسان پیاسا ہو تو اسے ہر حال میں پانی چاہیے۔ اگر آپ اسے صاف شفاف پانی نہیں دیں گے تو وہ گندا پانی پی کر اپنی پیاس بجھا لے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اصلی حقیقی اور محمدی اسلام لوگوں کو دے دیں تو پھر اس قسم کی دینی درسگاہوں کی ضرورت ہے تا کہ یہاں اصلی اسلام کی درس و تدریس ہو اور ہونہار شاگرد پیدا کیے جائیں جو پورے ملک اور پوری دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل کر اسلامی پیغام کو لوگوں تک پہنچائیں اور اسلامِ محمدی کو پہچنوائیں تاکہ اگر اسلامِ محمدی کے مقابلے میں استعمار اپنا اسلام پیش کرے تو مسلمان اس کے اسلام کو رد کر دیں اور اسلام محمدی پر عمل کریں، اسی لیے آج علماء کی ذمہ داری پہلے سے بڑھ گئی ہے۔

مدارس کا معیار

میں سمجھتا ہوں کہ آج ہمیں اپنے مدارس کے نظم و ضبط اور درس و تدریس کی طرف بھی زیادہ توجہ دینی چاہیے اور اس پر تجدید ِنظر کرنا چاہیے۔ اگر ہم اس طرف توجہ نہیں دیں گے تو پرانا نظام آج کے جدید دور کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا لہٰذا آج کا جوان اسے ناموزوں سمجھتے ہوئے کبھی ہمارے نزدیک نہیں آئے گا۔ ہم اگر چاہتے ہیں کہ جوانوں کو اپنے مدارس کی طرف راغب کریں تو ہمیں اپنے مدارس کو اس سطح پر لانا چاہیے کہ ایک ڈاکٹر، ایک انجینئر یا کسی یونیورسٹی کا فارغ التحصیل دینی مدرسے میں جانے کو عار محسوس نہ کرے بلکہ شوق و رغبت اور فخر کے ساتھ دینی مدرسے میں آئے۔

اسلام کا دقت سے مطالعہ

برادرانِ اسلامی! اگر ہم چاہتے ہیں کہ دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو ناکام بنائیں تو پھر ہمیں اسلام کا گہرا مطالعہ کرنا چاہیے اور ہمیں حقیقی اسلام کی طرف پلٹنا چاہیے۔ آج جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام آج کے جدید دور کے لیے کافی نہیں، موجودہ دور کے مسائل کا حل اسلام کے پاس نہیں اور آج کے معاشرے کو چلانے کے لیے اسلام کے پاس کوئی نظام نہیں اور نہ ہی اس کے پاس کوئی اقتصادی نظام ہے تو یہ ان لوگوں کی کوتاہ فکری ہے۔ در حقیقت ان لوگوں نے اسلام کو پہچانا ہی نہیں اور نہ ہی اس کا مطالعہ کیا ہے۔ اسلام میں سب کچھ موجود ہے پس اگر اسلام میں یہ سب کچھ موجود ہے تو یہ ہماری اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ ان کی زبان میں اور ان کے حساب کے مطابق ہم انہیں اسلام پیش کریں۔ ہمارا طریقہ، زبان اور لب و لہجہ ایسا ہو کہ آج کا جوان اسے درک کر سکے، نہ یہ کہ اس سے متنفر ہو جائے۔

مدارس کی ضرورت؟

آج اگر ہم چاہتے ہیں کہ واقعاً استعمار کے پنجے سے آزادی حاصل کریں تو پھر ہمیں زیادہ سے زیادہ دینی مدارس بنانے چاہئیں اور ان مدارس میں دوسرے علوم کی بھی تعلیم دی جانی چاہیے۔ اسی طرح تربیت اور خود سازی کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ انسان اپنے اندر موجود اپنے نفس سے آزاد ہو جائے۔ اگر وہ اس سے آزاد ہو جائے تو پھر باہر کے بڑے بڑے بتوں سے آزادی حاصل کرنا، اس کے لیے کوئی مشکل نہیں لیکن اگر کسی شخص نے اپنے اندر کے بت کو نہ توڑا ہو اور اپنے نفس کی قید سے آزادی حاصل نہ کی ہو تو وہ باہر کے بڑے بڑے بتوں سے کبھی آزادی حاصل نہیں کر سکتا۔ یہاں یہ بات عرض کرتا چلوں کہ آج ہمارے جوانوں کو مختلف پروگراموں کے ذریعے اسلام سے دور کیا جا رہا ہے۔ ہماری بہنوں کو فیشن کے نام پر اور ہمارے جوانوں کو ویڈیو کے ذریعے مذہب سے دور کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ کھیتوں میں کام کرنے والے کسانوں کو بھی مساوات وغیرہ کے نام پر اسلام سے متنفر کیا جا رہا ہے۔ اسلام میں یقیناً مساوات ہے اور اس میں شک نہیں کہ وہ اتحاد و اتفاق کا درس دیتا ہے لیکن نہ اس طرح کہ جیسے دنیا والے اس کی تفسیر کر رہے ہیں۔ اسلام میں آزادی اور مساوات ہے لیکن ان کی اپنی حدود ہیں۔

مدارس کی ذمہ داریاں

اب جبکہ استعمار ہمارے نوجوانوں کو مختلف ناموں سے اسلام سے دور کر رہا ہے تو یہ دینی مدارس کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ جوانوں کو دشمنانِ اسلام کے پنجے سے نکالنے اور اسلام کے قریب لانے کے لیے پروگرام تشکیل دیں اور ان کے لیے مدرسے کے اندر مساجد یا امام بارگاہوں یا پھر کالجز وغیرہ میں پروگرام رکھیں۔ اگر آج ہم ان کے لیے پروگرام تشکیل نہیں دیں گے تو کیمونسٹ اور دوسرے منحرف قسم کے لوگ اس انتظار میں ہیں کہ ہمارے جوانوں اور ہماری بہنوں کو فکری طور پر اغوا کریں اور انہیں ہم سے چھین لیں۔ اس لیے میں مدارس کے مسئولین، اساتذہ کرام اور بانیان محترم کی خدمت میں یہ عرض کروں گا کہ وہ ان مسائل کی طرف زیادہ توجہ فرمائیں۔

یقیناً مدرسہ بنانا بھی بہت بڑا کام ہے۔ جن بزرگوں نے پاکستان کی سرزمین پر مدارس کا بیج بویا، میں ان کی ارواح مقدسہ پر درود و سلام بھیجتا ہوں اور ان میں سے جو اس وقت زندہ ہیں، ان کی عمر کے لیے دعا کرتا ہوں خصوصاً حضرت حجۃ الاسلام والمسلمین سید صفدر حسین نجفی حفظہ اللہ کہ جنہوں نے واقعاً اس میدان میں وہ کام کیا ہے جو شاید نہ پہلے کسی نے کیا تھا اور نہ ہی ان کے بعد کوئی کر پائے۔ انہوں نے پاکستان کے ہر صوبے میں یہاں تک کہ قبائلی علاقہ جات میں اور بیرون ملک انگلستان اور امریکہ و غیرہ میں بھی مدارس قائم کیے ہیں۔

حجۃ الاسلام آقا کرامت علی شاہ صاحب نے بہت بڑا قدم اٹھایا ہے اور میں یہ عرض کروں گا کہ ایک لحاظ سے مولانا کرامت علی شاہ صاحب منفرد اور ممتاز ہیں۔ اس لیے کہ صفدر حسین صاحب قبلہ خداوند متعال ان کی عمر دراز کرے، انہوں نے بہت سے مدارس بنائے لیکن سب کے سب لڑکوں کے لیے تھے اور اب تک لڑکیوں کے لیے قبلہ نجفی صاحب نے کوئی مدرسہ نہیں بنایا تھا جبکہ مولانا کرامت علی شاہ صاحب نے یہاں خواتین، طالبات کے مدرسے کے لیے بہترین انتظامات کیے ہیں البتہ یہ عرض کرتا چلوں کہ ان سے پہلے ہمارے برادر بزرگوار حجۃ الاسلام آقا سید عابد حسین الحسینی نے پاراچنار میں طالبات کے لیے ایک مدرسہ بنا رکھا ہے، جہاں اس وقت لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور پہلے گروپ کی لڑکیاں اب شرح لمعہ پڑھتی ہیں۔ خداوند متعال ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔ جن بزرگان نے یہ کام کیا انہوں نے واقعاً قوم پر بہت بڑا احسان کیا ہے شَکَرَ اللّٰہُ مَسَاعِیْھِمْ۔ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا۔ اب یہ مدرسہ چلانے والے مدرس اور معلم کا کام ہے کہ وہ مدرسے کے لیے اتنا اچھا پروگرام بنائیں کہ جو جوانوں کو جذب کر سکے اور نہ صرف یہ کہ مدرسے میں رہنے والے طلبا کے لیے اچھا برنامہ تشکیل دیں بلکہ باہر اپنے جوانوں کے لیے بھی اچھے اچھے پروگرام ترتیب دیں تاکہ وہ یہ احساس کریں کہ یہ ہمارا مدرسہ ہے۔

تربیت کے اثرات

یقیناً یہ مدرسے ہمارے مورچے ہیں۔ اگر ہم نے اب ان مورچوں کو مضبوط اور آباد کیا تو ہم استعمار کا مقابلہ کر سکیں گے جو ہمارے خلاف ہر وقت سازشوں میں مصروف ہے اور اس راہ میں وہ ہر حربہ اور ہر طریقہ استعمال کر رہا ہے۔ حدیث میں ہے کہ: اَلْمُؤْمِنُ قَیِّسٌ مومن ہمیشہ ہوشیار و بیدار رہتا ہے۔ مومن سمجھدار ہوتا ہے۔ ایک واقعہ جب ہو جاتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟ عالم جس کے بارے میں امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جو عالم بزمان [اپنے زمانے کے حالات سے آگاہ] ہو تو اس پر چاہے جتنی بھی مشکلات آجائیں وہ کبھی حوصلہ نہیں ہارتا اور کبھی گھبراتا نہیں۔ وہ مشکل و مصیبت میں عقل و تدبر سے کامیابی کے ساتھ باہر نکل آتا ہے۔

آپ ابھی عالَم اسلام ہی کو دیکھ لیں، یقیناً آپ نے ایسی کتابیں پڑھی ہوں گی اور آپ کو علم ہوگا کہ دشمن ہمارے خلاف کیا کیا حربے استعمال کر رہا ہے اور ان میں بھی خصوصاً شیطانِ بزرگ امریکہ کیا کر رہا ہے؟ آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس طرح مظلوم لبنانیوں کا قتل عام کر رہا ہے خصوصاً حزب اللہ کا۔ یہی وہ حزب اللہ کے نوجوان تھے کہ جنہوں نے شہادت کے جذبے سے سرشار ہو کر، امریکہ اور اسرائیل کو ذلیل و خوار کیا اور انہیں اپنی سرزمین سے نکال باہر کیا اور یہ کام نہ فلسطینی کر سکے اور نہ لبنانی فوج یا کوئی ملیشیا و غیرہ کر سکی کہ جو اُن حزب اللہ کے جوانوں نے کر دکھایا۔ آج انہیں زندانی کیا جا رہا ہے اور ہر جگہ ان کا قتل ِعام ہو رہا ہے۔ ابھی حزب اللہ کے 30 جوانوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ سب سازشیں کس کے خلاف ہیں؟ یہ سب اسلام کے خلاف ہو رہی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان آپس میں لڑ جھگڑ کر ایک دوسرے سے دور ہو جائیں اور اس طرح وہ اپنے اصلی دشمن اسرائیل کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھا سکیں۔
پاکستان میں جو فسادات محرم الحرام میں ہوئے ہیں، یہ سب استعمار کی سازش کا نتیجہ ہیں۔ کراچی اور حیدر آباد میں پختون اور مہاجروں کے درمیان کشمکش انہی سازشوں کا ایک حصہ ہے تا کہ پاکستانی آپس میں اُلجھ کر امریکہ، اسرائیل اور ہندوستان کو بھول جائیں اور انہیں چھوڑ دیں۔ خود ہم شیعوں کے درمیان (مجھے بہت افسوس ہوتا ہے) مختلف ناموں سے اختلاف ڈال دیا گیا ہے جبکہ ہمارے عقائد میں ذرا برابر بھی اختلاف نہیں ہے۔ اے شیعیانِ پاکستان! ہوشیار ہو جاؤ! بخدا! جو اس قسم کے مسائل کو ہوا دیتے ہیں، وہ استعمار کی خدمت کر رہے ہیں، نہ کہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی۔ ہماری مشکلات اور ہمارے مسائل بہت زیادہ ہیں، وہ ان سب کو چھوڑ کر یہ مسئلہ اٹھاتے ہیں کہ فلاں نے یہ کہا ہے اور فلاں نے یوں کہا ہے۔ اسی طرح کچھ افراد پیدا ہو گئے ہیں جن کے متعلق میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کا تعلق نہ تشیع سے ہے اور نہ اسلام سے بلکہ یہ لوگ تو انسانیت سے ہی عاری ہیں۔ گمنام رہ کر علماء کے خلاف پمفلٹ نکالتے ہیں اور جید علماء کو نہایت عجیب القاب دیتے ہیں، یہ کام بزدل لوگوں کا ہوتا ہے، یہ لوگ ہرگز شیعہ نہیں بلکہ یہ انسان ہی نہیں! میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر تم واقعا مرد ہو تو پھر بھیس کیوں بدلتے ہو، سامنے آکر بات کیوں نہیں کرتے؟

مومن، مومن کا آئینہ

حدیث میں ہے کہ: اَلْمُؤْمِنُ مِرْاَۃُ الْمُؤْمِنِ، مومن کے دل میں اگر کوئی بات ہو تو وہ دوسرے کے سامنے آکر کہتا ہے اور اگر اسے کسی میں کوئی عیب نظر آئے تو وہ اس کے سامنے اسے تذکر دیتا ہے۔ یہ منافق کی علامت ہے کہ سامنے تو کوئی بات
نہ کرے لیکن اس کی پیٹھ پیچھے اس کے خلاف باتیں کرے۔ اگر آپ کا علماء اور دوسرے مومنین بھائیوں سے کوئی گلہ شکوہ ہے تو اسے سامنے آکر بیان کریں۔ یہ سب ہمیں آپس میں الجھانے کی سازش ہے۔ مجھے آپ کے خلاف بدگمان کریں، آپ کو میرے خلاف بدگمان کریں اور یوں ہماری طاقت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کریں تاکہ ہم اصل مطلب کو بھول جائیں اور قیام بالقسط، عدالتِ اجتماعی کا قیام اور ظلم و برائی کے خلاف جہاد جیسے اپنی ذمہ داریوں کو بھول جائیں، نفاذِ فقہ جعفریہ کو بھول جائیں۔ وہی فقہ جعفریہ کہ جس کے لیے علماء اور بالخصوص قائد مرحوم مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ نے اپنے آخری ایام میں کتنی تکالیف برادشت کیں اور جس کے لیے اسلام آباد، کوئٹہ اور دوسری جگہوں پر ہمارے شہداء نے اپنے خون کا نذرانہ دیا۔ آج یہ لوگ جو اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں، وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس فقہ جعفریہ کو بھول جائیں اور اپنی شخصیت کو سامنے رکھیں۔ بخدا شخصیت کے معاملے میں شیطان ہمیں دھوکہ دے رہا ہے۔ ہماری اور آپ کی شخصیت بہت چھوٹی ہے، کچھ بھی نہیں۔ خدا کے لیے اس شخصیت اور ذاتی عزت کو چھوڑو! قوم و ملک اور ملتِ جعفریہ کے وقار کی خاطر اٹھ کھڑے ہو! ہم جیسے ہزاروں خاک ہوجائیں اور مر جائیں لیکن مذہب پر کوئی حرف نہ آنے پائے۔

برادرانِ عزیز! مؤمن قَیِّس و ہوشیار ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس قسم کی پملفٹ بازی اور ان مسائل کو ہوا دینا، ایک سازش ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ ہماری توجہ اساسی اور بنیادی مسائل سے ہٹائیں لہٰذا آپ لوگ ہوشیار و بیدار ہو جائیں۔ آپ سب ہوشیاری اور تقویٰ و ایمان کے ساتھ دشمنوں کی سازش کو ناکام بنا دیں۔ آج مسئلہ میرا اور آپ کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ اسلام اور پورے تشیع کا ہے۔

وحدت کی تاکید

برادران عزیز! بخدا اگر آج ہم اپنی ذمہ داریوں کو بجا نہ لائے تو کل خدا اور امام زمانہ عج کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ سب لوگ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں! اگر ایک آدمی افلاطون بھی بن جائے تو جب تک دوسرے اس کا ساتھ نہیں دیں گے، وہ کچھ نہیں کر سکتا۔
برادرانِ عزیز! دشمنانِ اسلام اور استعمار کی طرف سے یہ سب سازشیں ہماری اور آپ کی نابودی کے لیے ہو رہی ہیں، وہ مذہبِ تشیع اور اسلام و قرآن کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم آپس میں متحد و متفق ہو جائیں اور ذاتیات کو چھوڑ دیں۔ صرف اور صرف ہدف و مقصد کو سامنے رکھیں اور اس پر متحد ہو جائیں۔

میں آپ سب سے یہ التجا کرتا ہوں کہ اگر آپ کے دل میں اسلام کا جذبہ ہے، انبیاء اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی قربانیوں کا احساس ہے، اگر ولایت ِاہل بیت علیہم السلام پر ایمان ہے، اگر آپ کو ملتِ محرومہ کا درد ہے، اگر آپ کو فقہ جعفریہ عزیز ہے، اگر عزاداریِ سید الشہداء علیہ السلام عزیز ہے تو پھر ذاتیات اور مادیات سے بالا تر ہوکر اس عظیم مقصد کی خاطر متحد و متفق ہو جائیں۔
وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ (انفال:۴۶) اور
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا (آل عمران:۱۰۳)
اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے دشمنوں کی ہر سازش کو ناکام بنا دیں۔ یہ مدارسِ دینی آپ کے مورچے ہیں۔ انہیں مضبوط سے مضبوط تر بنائیں۔ یہاں کے محسنین حضرات جو اس قسم کے نیک کام کر رہے ہیں، ان کے احسان کو فراموش نہ کریں! اگر ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے فرائض انجام دے تو میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ ہمارے سب مسائل حل ہو جائیں گے البتہ یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہمارے مسائل جتنے بھی بڑے اور ہماری مشکلات جتنی بھی زیادہ کیوں نہ ہوں، اگر ہم اپنی ذاتی رنجشوں کو بھلا کر متحد ہو جائیں تو وہ سب آسانی سے حل ہو سکتی ہیں۔
آخر میں ایک بار پھر میں حجۃ الاسلام آقا کرامت علی شاہ صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ اور اس مدرسے و محفل کے منتظمین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے موقع دیا کہ یہاں آکر آپ علماء کی نزدیک سے زیارت کر سکوں۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مساجد ہمارے مورچے ہیں، جہاں انسان اپنے رب کے حضور تذلل اور خشوع و خضوع کرتا ہے

شہید عارف حسین الحسینیؒ

قرآن کہتا ہے کہ مومن ہونے کا مطلب ہے سربلندی اور سرفرازی۔
مومن کا مقصد واضح ہوتا ہے، اس لیے وہ کبھی سست نہیں پڑتا۔

شہید عارف حسین الحسینیؒ

ایک اسلامی خاتون کو شریعت اسلامی، تعلیمات اہل بیتؑ اور فقہ جعفریہ کا پابند ہونا چاہیے

شہید عارف حسین الحسینیؒ

اور ہماری رگوں میں بھی وہی خون جاری ہے جو ایرانی اور دیگر مسلمانوں کے بدن میں جاری ہے۔ اگر وہ سامراج کے خلاف لڑ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں لڑ سکتے؟

شہید عارف حسین الحسینیؒ

  تازہ مضامین