تحفظ عزاداری کے حوالے سے خطاب
ڈیرہ اسماعیل خان
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ ِللّٰہِ قَاسِمِ الْجَبَّارِیْنَ، مُبِیْرِ الظَّالِمِیْنَ، مُدْرِکِ الْھَارِبِیْنَ، وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ، خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ، اَبِی الْقَاسِمِ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی الْمَعْصُوْمِیْنَ مِنْ آلِہِ وَالْمُنْتَجَبِیْنَ مِنْ صَحْبِہِ، وَالسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّاِلحِیْنَ۔ اَمَّا بَعْدُ اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمْ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (آل عمران۔۱۳۹)
میرے عزیز بھائیوں اور محترم بہنوں! آپ کے پاک احساسات و جذبات ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ آج ہم کس لیے یہاں جمع ہوئے ہیں؟ آج ہم یہاں حکومت کے ایک غیر عادلانہ فیصلے کے خلاف احتجاج کے طور پر جمع ہوئے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس اجتماع میں ہم اس موضوع پر بات کرتے کہ عالم اسلام کے لیے اس وقت کون کون سے مسئلے درپیش ہیں۔ افغانستان مظلوم سے کس طرح اور کن طریقوں سے ہم روس کو ذلت و خواری کے ساتھ نکال دیں۔ فلسطین کے مسلمانوں کو ہم کس طرح دوبارہ فلسطین مظلوم میں واپس لے جائیں۔ لبنانیوں کو کس طور اور کس طریقے سے ہم اسرائیلیوں کے ظلم سے بچالیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ہم کون سا طریقہ اختیار کریں کہ وہ وہاں کے متعصب ہندوؤں کے مظالم سے نجات حاصل کرسکیں اور اس وقت جو کفر و اسلام کی جنگ ہے اور ایک اسلامی نظام کے خلاف دونوں طاغوتی طاقتوں نے صدام ملعون کو آگے لا کر ایران پر جنگ مسلط کی ہے اور ساتھ ساتھ امریکہ خلیج میں مداخلت کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
ہم یہاں بحث کرتے کہ امریکہ نے اس قسم کی غلطی کی تو پاکستان کے مسلمان، سنی ہوں یا شیعہ، وہ ہر ممکن طریقے سے اس سے انتقام لیں گے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم یہاں یہ بحث کرتے کہ ملک میں قومیت کے نام پر بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ سینکڑوں معصوم بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ قومی مفادات اور اموال کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ ہم کیا طریقے اختیار کریں کہ مہاجر اور پختون کو بھائی بھائی بنا دیں۔ ہم پاکستان میں اس وقت موجود برائیوں، عریانی، خرابیوں اور بدمعاشیوں کو کس طریقے سے ختم کریں۔ ہم کیا طریقے اختیار کریں کہ پاکستان کے فیصلے واشنگٹن کی بجائے خود اسلام آباد میں ہوں۔ لیکن افسوس کہ آج ہمیں اس استعمار نے جو اسلام کا دشمن ہے، جو شیعہ کا دشمن ہے، جو سنی کا دشمن ہے، جو بریلوی کا دشمن ہے، جو دیوبندی کا دشمن ہے، جو اہل حدیث کا دشمن ہے، جو اہل تصوف کا دشمن ہے، اس استعمار نے ہمارے لیے کئی قسم کے مسائل پیدا کر رکھے ہیں۔ کبھی ہمیں قومیت کے نام پر آپس میں لڑا رہا ہے۔ کبھی ہمیں مذہب کے نام پر آپس میں لڑا رہا ہے، کبھی کسی نام پر۔
برادر مسلمان! آیا ہماری حکومت اس وقت استعمار کی آلہ کار نہیں ہے؟ جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے خواہ وہ فرقہ واریت کے نام پر ہو رہا ہو یا قومیت کے نام پر، کیا ان سب حالات کے لیے ہماری موجودہ حکومت ملوث نہیں ہے؟ کیا ان کی کوئی کوتاہی نہیں ہے؟ کیا ان کی پالیسی غلط نہیں ہے؟ آپ دیکھیں کہ ادھر سندھ میں، کراچی میں، حیدرآباد میں قومیت کے نام پر مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہے۔ یہاں کی موجودہ حکومت کو چاہیے تھا کہ اس قومیت کے نام اور فساد کو ختم کرنے کی کوئی کوشش کرتی، الٹا خود اس سے نمٹنے کی بجائے یہاں وہ فرقہ واریت کا مسئلہ پیدا کر رہی ہے۔
برادر مسلمان! افسوس اس وقت ہم سب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں۔ شیعہ ہو یا سنی، بریلوی ہو یا دیوبندی، اہل حدیث ہو یا اہل تصوف، ہم سب کہتے ہیں کہ ہم سب مسلمان ہیں۔ آپ بتائیں کہ اسلام تو اس لیے آیا تھا کہ مسلمانوں کو ایک جگہ متحد ہوتا دیکھے۔
-
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیْعاً وَّ لَاتَفَرَّقُوْا (آل عمران۔ ۱۰۳)
اسلام تو اس لیے آیا تھا کہ ان جھگڑوں کو ختم کردے۔
-
وَلاَ تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلَوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ (انفال۔۴۶)
اسلام تو اس لیے آیا تھا کہ مسلمانوں کے درمیان اخوت کا جذبہ بیدار کرے۔
-
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (حجرات۔۱۰)
اَلْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِناتِ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ (توبہ۔۷۱)
اسلام تو اس لیے آیا تھا کہ وہ کئی سو سالوں کی آپس میں جو نفرتیں تھیں ان کو ختم کردے۔ چنانچہ سورہ آل عمران (آیت۔۱۰۳) میں ارشاد ہوتا ہے
-
وَاذْکُرُوْانِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَائُ فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ
یہ کون سا اسلام ہے؟
اسلام نے تو ہمیں سب سے اچھی امت قرار دیا ہے۔ ’’کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ‘‘ اسلام نے تو ہمیں اتحاد و اتفاق و محبت و الفت کا درس دیا ہے۔ آج کیوں مسلمانوں کے درمیان نفرتوں کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ خصوصی محافل میں یا عمومی اجتماعات میں ہم ایک دوسرے کے خلاف زہر اگل رہے ہیں۔
میں آرہا تھا تو میں نے راستے میں جگہ جگہ پولیس کو دیکھا میں اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کیا ہم حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں جو اتنی پولیس جمع ہے، نہ ہمارا کوئی بھائی توڑ پھوڑ کے لیے جمع ہوا ہے اور نہ کسی غلط اقدام کے لیے۔ ہم تو اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ اپنی مظلومیت بیان کریں۔
ہم کہتے ہیں کہ جب بیسیوں سال اس روٹ پر سید مظلومان امام حسین علیہ السلام کا جلوس چلتا رہا ہے تو اب بھی اس کو بحال رکھا جائے۔ اگر اس روٹ کو تبدیل کیا گیا تو یہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوگی۔ ہمارے بھائی احتجاجی طور پر یہاں جمع ہوئے ہیں۔ اپنی مظلومیت بیان کرنے کے لیے آئے ہیں۔ حکومت اس قدر پولیس کو سڑکوں پر لا کر خواہ مخواہ تصادم کرنا چاہتی ہے اور اس مسئلے کو مزید بگاڑنا چاہتی ہے۔ اگر حکومت کے عزائم غلط نہیں ہیں تو کس گناہ میں سید اور عزادار کو کئی دن سے قید کیا ہوا ہے اور جیل میں ڈال رکھا ہے۔ ان کا کیا قصور ہے؟ کیوں یہاں کی انتظامیہ خواہ مخواہ اس مسئلے کو خراب کرنا چاہتی ہے۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ مسئلہ اس سے زیادہ پیچیدہ نہ ہو اور افہام و تفہیم کے ساتھ حل ہو جائے لیکن حکومت جس قسم کی حرکات انجام دے رہی ہے تو اگر ہمارے جوانوں کے احساسات و جذبات ہمارے قابو سے باہر ہوگئے تو حالات کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ حکومت حسن تدبر سے کام لے اور حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان کے مومنین کے احساسات و جذبات کا احترام کرے اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جس کے نتیجہ میں اسے کوئی بڑی زک اٹھانی پڑے۔ جس طرح کہ مجھ سے پہلے بھائی نے تقریر میں کہا یہ مسئلہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ جہاں جہاں بھی شیعہ رہتے ہیں ہر جگہ پر اس کا اثر پڑے گا اور یقینا اس مسئلے میں وہ ڈیرہ اسماعیل خان کے مومنین کے تعاون کے لیے یہاں پہنچیں گے۔
حسین علیہ السلام سب کا
میں ڈیرہ اسماعیل خان کے اہل سنت بھائیوں سے گزارش کرونگا کہ حسین علیہ السلام صرف شیعہ کا نہیں ہے حسین علیہ السلام آپ کا بھی ہے جس قدر حسین علیہ السلام کا شیعہ پر احسان ہے اس قدر حسین علیہ السلام کا آپ پر بھی احسان ہے جو بھی نماز پڑھے جو بھی کلمہ توحید پڑھے جو بھی احکام و عبادات بجالائے اس پر حسین علیہ السلام کا احسان ہے اگر حسین علیہ السلام سب مسلمانوں کا ہے تو پھر آپس میں لڑائی کس بات کی؟ اگر شیعہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کرنا چاہتے ہیں تو ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ بھی آکر ان کے ساتھ عزاداری میں شرکت فرمائیں لیکن اگر آپ بعض وجوہات کی بناء پر شرکت نہیں فرمانا چاہتے تو کم از کم آپ کی طرف سے ہمارے لیے اتنی مزاحمت نہیں ہونی چاہیے۔
سنی اور شیعہ کا دشمن کون؟
برادر مسلمان! آپ کو جان لینا چاہیے کہ آج نہ شیعہ سنی کا دشمن ہے اور نہ سنی شیعہ کا بلکہ دونوں کا دشمن استعمار اور کفر و سامراج ہیں جو ہمیں آپس میں لڑاتے ہیں۔ برادر مسلمان! آئو سب مل کر پرچم اسلام، کلمہ توحید اور اقدار اسلامی کی سربلندی کے لیے دشمنان اسلام کے خلاف متحد ہو جائیں اور میں ان سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ ہماری ان مخلصانہ باتوں کو غور سے سنیں اور ان کا مثبت جواب دیں اور ہم سب مل کر آپس میں محبت و اخوت کے ساتھ مسئلے کو حل کریں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں برادری و اخوت کی فضا برقرار کریں اور ساتھ ہی میں اپنے شیعہ بھائیوں کی خدمت میں بھی یہ عرض کرونگا۔ اے عزاداران حسین علیہ السلام آپ کو یہ دیکھنا چاہیے کہ میں کس مشن کے لیے یہ عزاداری کر رہا ہوں میں جو سڑک پر آتا ہوں ہم جو امام بارگاہ میں یا مسجد میں جمع ہوتے ہیں وہ عظیم و بلند تر مقصد جس کے لیے سید شہداء علیہ السلام نے عظیم قربانی دی ہے وہ مقصد اور فلسفہ شہادت کیا ہے؟ ہمیں اس مشن کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھنا چاہیے ہر وہ بات ہر وہ تقریر ہر وہ تحریر ہر وہ قدم جس سے حسینی مشن کو نقصان پہنچے اس کام سے اس بات سے اس قلم سے اس تحریر سے اس تقریر سے ہمیں اعراض کرنا چاہیے۔ برادر عزیز آپ تو یہ توقع رکھتے ہیں کہ سنی بھائی آپ کے ان احساسات و جذبات کو مجروح نہ کریں تو اسی طریقے سے وہ آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آپ بھی ان کے احساسات و جذبات کو مجروح نہ کریں جس طریقے سے آپ یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آپ کے مقدسات کا احترام کریں اسی طریقے سے وہ آپ سے توقع رکھتے ہیں کہ آپ بھی ان کے مقدسات کی توہین نہ کریں۔
ایک حدیث معصوم علیہ السلام
برادر مسلمان! واقعاً ہم نے تشیع کو نہیں سمجھا۔ ابھی جس طرح میرے بھائی نے وہ حدیث کا جملہ پڑھا۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں (ہماری معتبر کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے کہ) اگر کسی قصبے میں ایک لاکھ کی آبادی ہو اور ان کے اندر صرف ایک شیعہ رہتا ہو تو تقویٰ کے لحاظ سے، عمل صالح کے لحاظ سے، دیانتداری کے لحاظ سے اس سو ہزار کی آبادی میں اس شیعہ کو سب سے بالاتر ہونا چاہیے۔ برادر عزیز! شیعہ یعنی تقویٰ، شیعہ یعنی دیانتداری، شیعہ یعنی صداقت۔ ہمیں ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے۔ میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں کہ میں دیر سے پہنچا اور آپ کو میں نے زحمت دی۔ اب چونکہ مغرب کا وقت ہونے والا ہے اس لیے میں آپ سے معافی چاہتا ہوں اور یہ عرض کروں کہ یہ مسئلہ فقط آپ کا مسئلہ نہیں ہے چونکہ عزاداری سید الشہداء علیہ السلام سارے شیعوں کا مسئلہ ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ عزاداری سید الشہداء علیہ السلام افضل ترین قربات و عبادات میں سے ہے، شعائر اللہ میں سے ہے اور ہماری شہ رگ ہے پھر اگر عزاداری سب شیعوں کا مسئلہ ہے تو پھر ان شاء اللہ ہم مل کر اس مسئلے کو حل کرینگے اور ہم یہ نہیں کہتے کہ ابھی اسی وقت اور اسی مجلس میں مسئلہ حل کردینگے لیکن الحمد للہ ڈیرہ اسماعیل خان میں آپ کے ذمہ دار افراد موجود ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انھیں کس طریقے سے قدم اٹھانا ہے، ہم بھی ان کے ساتھ ان شاء اللہ مل کر اور حسن تدبر کے ساتھ اس مسئلے کو حل کرینگے اور جس طریقے سے ہمارے بھائیوں نے مجھ سے پہلے تقاریر میں کہا کہ روٹ کی تبدیلی ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے چونکہ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے اور کون سے مسائل آتے ہیں اور اس کا اثر دیگر کون سے مسائل پر پڑتا ہے۔ اس لیے ہم روٹ اور لائسنس وغیرہ کو غیر عاقلانہ اور غیر منصفانہ سمجھتے ہیں اور یہاں کی انتظامیہ سے ہم یہ خواہش کرتے ہیں کہ وہ حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس فیصلے کو واپس لے اور ہم اپنے سنی بھائیوں سے مل کر اخوت کے ساتھ برادری کی فضا میں افہام و تفہیم کے ذریعے مسئلے کو حل کردینگے اور آخر میں میں آپ سارے بھائیوں کا اور بہنوں کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ خداوند متعال ہم اور آپ کو اپنی اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ فرمائے اور پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور عزاداری سید الشہداء علیہ السلام کو شایان شان طریقے سے برپا کریں تاکہ خدا قیامت کے دن ہم سب کو سید الشہدا ء علیہ السلام کے عزاداروں کی صف میں شامل فرمائے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ


