آئی ایس او کنونشن سے خطاب
۱۹۸۶

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ملت کی توقعات

آج لوگ منتظر ہیں کہ کہاں تک آپ ان کی توقعات کے مطابق قدم اٹھاتے ہیں، کہاں تک آپ اسلامی تعلیمات اور اسلامی اخلاقیات کا خیال رکھتے ہیں۔

تو برادرانِ عزیز! میرے خیال میں اس میں کسی کو شک نہیں کہ ہمیشہ ایک متحرک اور فعال تنظیم کے لیے باہر سے اتنا خطرہ نہیں ہوتا، جس قدر اسے اندر سے خطرہ ہوتا ہے۔

میرے خیال میں شاید آپ ہی نے پاکستان میں دوسری پارٹیوں کو برسرِ عام سڑکوں پر مردہ باد امریکہ، مردہ باد روس اور مردہ باد اسرائیل کے نعرے سکھائے ہیں، اور آپ نے ہی انھیں یہ جرأت دی ہے۔

آپ نے پاکستان میں یومِ مردہ باد امریکہ، یا یوم القدس کے نام سے، یا ہفتہ وحدت کے نام سے پروگرام کروائے ہیں۔

یقیناً آپ کے ان اقدامات اور آپ کی ان سرگرمیوں کی وجہ سے امریکہ گھات لگا کر بیٹھا ہے، اور اس انتظار میں ہے کہ کب اسے موقع ملے اور وہ آپ پر وار کرے۔

اب یہ ہم اور آپ پر ہے کہ ہم اپنے کردار اور اعمال کے ذریعے مستضعفین، اسلامی تحریکوں اور پاکستان میں ملتِ جعفریہ کی توقعات کے مطابق کیا قدم اٹھاتے ہیں، یا اس کے برعکس استعمار و سامراج کے مفاد میں قدم اٹھاتے ہیں۔

اتفاق و اتحاد، جنودِ رحمن میں سے ہے۔ یہ خدا کے لشکر کے سپاہی ہیں۔

اختلاف اور نفاق، شیطان کے جنود اور اس کے لشکر میں سے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہم اور آپ خدا کے لشکر کا ساتھ دے رہے ہیں (یعنی اگر ہم اتحاد و اتفاق کی بات کرتے ہیں)، یا شیطان کے لشکر کا ساتھ دے رہے ہیں (کہ جب اختلاف و نفاق کی بات کرتے ہیں)۔

صحیح معنوں میں مسلم نوجوان

برادران عزیز! میں آپ کے مبارک چہروں پر جب نظر کرتا ہوں تو آپ کے چہروں پر مجھے اسلامی عکس دکھائی دیتاہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اگر صحیح معنوں میں مسلمان نوجوان ہیں تو ہمارے یہی نوجوان ہیں جو آئی۔ایس۔او کے پلیٹ فارم پر کام کر رہے ہیں، یہی صحیح مسلمان ہیں۔ یہ خدا، رسول، اسلام و قرآن اور اہل بیت اطہار علیہ السلام کیلئے کام کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ نا مجھ سے اور نا کسی اور سے شاباش کہنے کی توقع بھی نہیں رکھتے۔

برادران عزیز! اگر آپ کا تعارف پاکستان میں علماء کے درمیان اور دوسرے حلقوں میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے ہوا ہے تو پھر آپ کیلئے شائستہ اور زیبا یہی ہے کہ آپ کا کردار آپ کی گفتار اور آپ کا سب کچھ اسلامی اخلاق کے مطابق ہو۔

روش کے اختلاف سے بھی اجتناب کریں

برادرانِ عزیز! ہم بعض افراد سے کچھ باتیں سنتے ہیں، وہ بھی آپ کے حلقوں کے اندر سے، تو ہمیں افسوس ہوتا ہے۔ یہ جوان جو اس پلیٹ فارم پر جمع ہوئے ہیں، کسی عہدے کی لالچ کی خاطر نہیں، مادیت کی خاطر نہیں، کسی اور ذاتی مفاد کی خاطر نہیں؛ صرف اور صرف خدا کی خاطر، اسلام، قرآن اور اہلِ بیت علیہ السلام کی خاطر اس پلیٹ فارم پر جمع ہوئے ہیں۔ اگر آپ خدا کی خاطر اس پلیٹ فارم پر جمع ہوئے ہیں تو پھر آپ کے اندر سے اختلاف کی صدائیں بلند نہیں ہونا چاہئیں۔

میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کے درمیان نظریاتی اختلافات تو ہرگز نہیں۔ نظریہ تو ہم سب کا ایک ہی ہے، اور وہ قرآن و اہلِ بیت علیہ السلام کی تعلیمات کے سائے میں زندگی گزارنا ہے؛ اہلِ بیت علیہ السلام کی خاطر جینا اور مرنا ہے۔ نظریے میں ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن میں آپ سے گزارش کروں گا کہ آپ کوشش کریں کہ حتیٰ المقدور طریقے اور سلیقے [طرزِ فکر] کا اختلاف بھی آپ کی تنظیم میں نہ ہو، اور آپ کبھی بھی سلیقے اور طرزِ فکر کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف نہ کریں۔

برادرانِ عزیز! ہم یہ بار بار کہتے ہیں کہ اصل اختلاف یقیناً ایک فطری چیز ہے۔ خدا نے افکار و اذہان کو مختلف خلق کیا ہے۔ لیکن جب کوئی ایک فیصلہ ہوتا ہے، تو اس کے بعد اختلاف کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ جب تک ایک مسئلہ زیرِ بحث ہوتا ہے، تو اس وقت تک ہر ایک کو اختلاف کرنے کا اخلاقی اور عقلی حق حاصل ہے، لیکن جب کچھ ذمہ دار افراد (جن کی آپ جو بھی تعبیر کریں) کوئی فیصلہ کرتے ہیں، تو پھر صاحبِ اختلاف کو اس تنظیم کے ذمہ دار افراد کے فیصلے کی اہمیت کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

برادرانِ عزیز! چونکہ وقت متقاضی نہیں کہ کچھ تاریخی شواہد آپ کی خدمت میں عرض کروں، لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر ہمیں اپنی تنظیم کے مفادات عزیز ہیں، تو پھر اگر کسی حد تک ہمارا کسی کے ساتھ طریقِ کار کے عنوان سے اختلاف بھی ہو، تو ہمیں اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اختلاف کے اظہار سے اپنی تنظیم میں انتشار پیدا نہیں کرنا چاہیے۔ خدا کی خاطر آپ تنظیم میں دھڑے بندی سے شدت کے ساتھ اجتناب کریں۔ جس قدر تنظیم کے لیے داخلی دھڑے بندی اور گروپ بندی مضر ہے، اتنی باہر سے اس کے لیے کوئی چیز مضر نہیں۔ ان دھڑے بندیوں کو آپ ختم کریں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہمارا مسلک اسلام، قرآن و اہلِ بیت علیہ السلام ہے، تو اس میں پھر یہ نہیں ہے کہ فرض کرو وہ فلاں گروپ کا ہے، اور وہ فلاں گروپ کا ہے، یا وہ فلاں قومیت سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارے لیے سب کچھ اہلِ بیت علیہ السلام ہیں۔

میرے عزیز بھائیوں! بخدا میں یہ عرض کروں گا کہ اگر کوئی ایسی بات جس کی وجہ سے آپ بھائیوں کے دلوں میں نا اُمیدی پیدا ہو جائے، ہمارے لیے اس اسٹیج پر حرام ہے۔ کوئی ایسی بات کرنا جس سے آپ کے دلوں میں، آپ کے اذہان میں مایوسی پیدا ہو، میرے لیے حرام ہے، تو آپ کے لیے بھی حرام ہے۔ آپ اگر کوئی ایسی بات کریں، ایسے اقدام کریں، جس کے ذریعے بھائیوں کے اذہان میں غلط فہمی یا دلوں میں نا اُمیدی پیدا ہو، تو وہ جائز نہیں۔

آپ ہمارے سر کے تاج ہیں

برادرانِ عزیز! میں بار بار آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ ہم آپ کو دوست رکھتے ہیں، آپ سے محبت کرتے ہیں؛ اسلام کی خاطر آپ سے محبت کرتے ہیں، قرآن کی خاطر، جب تک آپ اسلام، قرآن اور اہلِ بیت علیہ السلام کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں، اور آپ اہلِ بیت علیہ السلام کی تعلیمات پر گامزن ہیں، آپ ہمارے سر کے تاج ہیں۔ آپ خدا اور رسول ﷺ کو بھی عزیز ہیں۔ لیکن خدا نخواستہ اگر آپ اسلامی اخلاقیات کو نظر انداز کریں، اسلامی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیں، اگر آپ نے اسلامی اقدار اور نظریات کو نظر انداز کیا، تو پھر ہمارے نزدیک آپ کی محبوبیت کسی اور چیز کے ذریعے نہیں ہے۔

دینی و دنیوی تنظیموں میں فرق

میرے بھائیوں! میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کروں کہ ہماری اور آپ کی تنظیم ذاتی مفادات کے لیے نہیں ہے۔ دنیاوی اور دینی قسم کی تنظیموں کے درمیان فرق یہ ہوتا ہے کہ دنیاوی تنظیموں میں لوگ یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کو عہدہ مل جائے، لیکن دینی تنظیموں میں عہدوں سے لوگ جان چھڑاتے ہیں؛ اس لیے کہ یہاں عہدہ مقصد نہیں ہوتا، یہاں عہدہ حصولِ مقصد کے لیے ذریعہ اور وسیلہ ہوتا ہے، یہاں عہدہ انسان کے لیے امتحان ہوتا ہے، انسان کے لیے تکلیفِ شرعی ہوتا ہے۔

اس لیے ایسی تنظیموں میں، جو واقعاً اسلامی افکار رکھتی ہیں، لوگ عہدوں سے دور بھاگتے ہیں۔ شاید میں نے یہ قصہ پہلے بھی آپ بھائیوں کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ مرحوم ابنِ طاؤسؒ، جو شیعوں کے بہت بڑے عالم گزرے ہیں اور کئی مرتبہ حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی خدمت میں بھی شرف یاب ہو چکے تھے، انھیں ایک مرتبہ حکومت وقت نے بلایا اور کہا: ”قضاوت کا عہدہ قبول کرو“۔ اس زمانے میں قاضی القضاۃ بہت بڑا عہدہ تھا، یعنی یہاں تک کہ قاضی القضاۃ کے سامنے خلیفہ بھی جوابدہ ہوتا تھا۔ اگرچہ آج کل آپ دیکھتے ہیں کہ جو حکومت کے بڑے بڑے سربراہان ہوتے ہیں، ان پر عدلیہ کا کسی قسم کا کنٹرول نہیں ہوتا۔

بہرحال، اس سے ہمارا کام نہیں ہے۔ حکومت نے ابنِ طاؤس کو بلایا اور کہا کہ آپ یہ عہدہ قبول کرلیں۔ تو انھوں نے انکار کیا۔ آخر میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اتنا اہم عہدہ قبول کیوں نہیں کیا؟ انھوں نے جواب دیا کہ ”میرے وجود کے اندر دو فریقوں کے درمیان جنگ ہے: ایک کا نام نفس، اور دوسرے کا نام عقل۔ اب تک میں ان دو کے درمیان صحیح فیصلہ نہیں کرواسکا، ان کا جھگڑا ختم نہ کرسکا؛ کبھی عقل غالب آ جاتی ہے، کبھی نفس غالب آ جاتا ہے۔ تو میں دوسروں کے درمیان کس طریقے سے فیصلہ کرسکتا ہوں؟“

عہدہ امتحان ہے

برادرانِ عزیز! یہ عہدہ ہمارے اور آپ کے لیے امتحان ہے، تکلیفِ شرعی ہے، امانت ہے۔ اس امانت کے متعلق ہم اور آپ سے سوال کیا جائے گا۔ خدا شاہد ہے، جب سے یہ تحریک کی ذمہ داری ہمارے سر پر آئی ہے، ہمیں خود ہر وقت یہی فکر ہوتی ہے کہ: خدایا! ہم قبر میں ملائکہ کو کیا جواب دیں گے؟ اگر ہم سے کوئی غلطی اور کوتاہی ہوگئی ہو تو ہم کیا جواب دیں گے؟ کل اگر خدا کی عدالت میں ہماری پیشی ہو جائے تو ہم وہاں کیا جواب دیں گے؟

خدا شاہد ہے، ہم اب بھی اس انتظار میں ہیں کہ خدا کوئی شخص پیدا کرے جو اہل ہو، اور یہ امانت ہم اس کے سپرد کریں، اور ہم واپس اپنے علاقے میں دوسرے بھائیوں کے ساتھ اسلامی سپاہی کی حیثیت سے خدمت میں مشغول ہو جائیں۔

عہدہ مقصد نہیں، بلکہ حصولِ مقاصد کا وسیلہ ہے

برادرانِ عزیز! بس، ہمارے اور آپ کے نزدیک یہ عہدہ امتحان ہے، یہ عہدہ مقصد نہیں ہے۔ اس عہدے سے ہماری اور آپ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں؛ اس کے علاوہ کوئی اور فرق نہیں آتا۔ اگر یوں ہے تو پھر ہمیں عہدوں پر کسی کے ساتھ تلخ کلامی نہیں کرنی چاہیے، کسی قسم کی دل آزاری نہیں کرنی چاہیے، اور کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس کی وجہ سے لوگ تاثر لیں کہ آئی۔ایس۔او کے درمیان کچھ افراد ہیں جو یا اقتدار طلب ہیں، یا انحصار طلب ہیں، یا خواہشاتِ نفسانی ان پر غالب آ گئی ہیں؛ اور چونکہ ان کو عہدہ نہیں ملا، یا ان کے ساتھی کو عہدہ نہیں ملا، اس لیے انھوں نے گڑبڑ کی ہے۔ آپ یہ موقع دشمنوں کے ہاتھ نہ دیں۔

آپ اسلام کے سپاہی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، اس لیے دشمنانِ اسلام کے دلوں میں آپ کے لیے بغض و کینہ ہے۔ وہ آپ سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ان کے ہاتھ میں موقع دے دیں، اور وہ جس طرح چاہیں، اسی طریقے سے آپ کے اور ہمارے خلاف، یا اس تنظیم کے خلاف زہر اگلیں۔

علمائے ربانی کے سائے میں سفر جاری رکھیں

برادرانِ عزیز! آخر میں یہ نکتہ ضرور عرض کروں گا کہ آپ کو اس بات پر یقین ہونا چاہیے، اور آپ کو اپنی جگہ پر تسلی ہونی چاہیے، کہ اگر ہماری اور آپ کی تنظیم اسلامی ہے، اگر ہماری اور آپ کی تنظیم خدا کی طرف بڑھ رہی ہے، اگر ہمارا اور آپ کا مقصد خدا، رسول ﷺ اور امامِ زمانہ کی رضایت اور خوشنودی ہے، تو پھر اس بات سے ہمیں اور آپ کو انکار نہیں کرنا چاہیے کہ ہم اس وقت اس مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں جب ہم علمائے کرام کی سرپرستی اور علمائے ربانی کے سائے میں اپنے سفر کو جاری رکھیں۔

علماء کی سرپرستی کے بغیر اگر ہم نے یہ حرکت جاری رکھنے کی کوشش کی تو نہ صرف یہ کہ ہم یہ سفر جاری نہیں رکھ سکیں گے، بلکہ یہ بھی احتمال ہے کہ جو دشمنِ اسلام کمین میں بیٹھے ہیں، ہم ان کا لقمہ بن جائیں۔ اس لیے میں آپ سے برادرانہ طور پر یہ خواہش کروں گا کہ آپ جہاں بھی رہتے ہیں، علماء کے ساتھ اپنے رابطے کو مضبوط بنائیں۔ آپ علماء سے مشورہ کریں، آپ اپنی اپنی جگہوں پر علماء کے دروس میں شرکت کریں، اپنے اپنے علاقوں میں نماز بھی قائم کریں؛ چونکہ اگر ہماری تنظیم اسلامی ہے، تو اسلامی اسپیشلسٹ بھی علماء کرام ہیں۔ وہ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ یہ راستہ خدا کی طرف جاتا ہے، اور یہ راستہ ماسکو کی طرف جاتا ہے یا واشنگٹن کی طرف۔

میرے بھائیوں! اس لحاظ سے میرا تعلق بھی اہلِ علم سے ہے۔ خدا شاہد ہے کہ اس لحاظ سے میں نہیں کہتا، بلکہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دوست و دشمن نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اسلامی تحریکیں علماء کی سرپرستی میں ہی کامیاب ہو سکتی ہیں۔ اس لیے اگر استعمار و سامراج آج تک یہ پروپیگنڈہ کرتا رہا کہ دین سیاست سے جدا ہے، آج اسلامی انقلاب نے دشمنانِ اسلام کے اس حربے کو ناکام بنا دیا ہے۔ آج اگر مسلمانوں کے اندر کوئی یہ بات کرے کہ دین سیاست سے جدا ہے، تو لوگ اس پر ہنسیں گے۔

اب اگر اس حربے کے ذریعے استعمار و سامراج اپنے برے اور ناپاک ہدف تک نہیں پہنچ سکا، تو یقیناً اب دوسرا حربہ استعمال کرے گا۔ وہ کیا ہے؟ وہ یہ کہے گا کہ فلاں عالمِ دین مثلاً ایسا ہے، تو فلاں ایسا ہے؛ اسی طرح سب کو کینسل کرتے کرتے آخر میں کسی کو نہیں چھوڑے گا، کوئی بھی آدمی نہیں رہے گا۔ اس لیے آپ سامراج و استعمار کے اس حربے کی طرف متوجہ رہیں کہ وہ آپ کو کہیں علماء سے بدگمان اور دور نہ کر دیں۔ آپ اپنی ہوشیاری، ذہانت و فراست اور ایمان کے ساتھ دشمنانِ اسلام کی ہر سازش کو ناکام بنا دیں۔

اسلام کی قدرت ہی قابلِ بھروسہ ہے

برادرانِ عزیز! بخدا، جو قدرت اسلام میں ہے وہ کسی اور چیز میں نہیں۔ میرے خیال میں آپ بھائیوں نے اخبارات میں پڑھا ہوگا، اور بیرونی ذرائع ابلاغ سے بھی سن چکے ہوں گے، یا کچھ حضرات موجود ہوں گے جنہوں نے پرسوں دن کے ایک بجے ریڈیو تہران سے حجۃ الاسلام والمسلمین آقائے رفسنجانی حفظہ اللہ تعالیٰ کی تقریر سنی ہوگی۔ انھوں نے مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہا تھا (یعنی وہ قصہ جو امریکی صدر کے ایک مشیر کو ایران نے کس ذلت کے ساتھ نکال دیا، اس قضیے کے سلسلے میں وہ فرما رہے تھے اور مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہہ رہے تھے)

اے دنیا کے مسلمانوں! بخدا، ان سپرطاقتوں میں کوئی قوت نہیں ہے۔ یہ خالی خول ہیں، ان کے اندر کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کا صرف پروپیگنڈہ ہے۔ اگر کچھ کر سکتے تھے تو ایران کے خلاف کچھ کرتے۔ ایران کو چھوڑو، لبنان کے عوام و مسلمین، جو اس وقت ہمارے ایک صوبے کے برابر بھی نہیں ہیں، وہ امریکہ کے مقابلے میں آئے ہیں۔ انھوں نے کس طریقے سے امریکہ کو ذلیل و خوار کیا ہے۔ ان میں یہ کون سی طاقت ہے؟ یہ ایک اسلامی طاقت ہے، یہ قرآن کی طاقت ہے، یہ ایمان کی طاقت ہے۔

برادرانِ عزیز! ہمیں اسلام کی طاقت پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ہمیں اسلام کے سائے میں زندگی گزارنی چاہیے۔ ہم عدالت پسند ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں عدالت قائم ہو، لیکن وہ عدالت جو اسلام، قرآن اور تعلیماتِ اہلِ بیت علیہ السلام کے سائے میں ہو۔ اگر اسلام کے سائے میں عدالت نہ ہو، تو ہمیں وہ عدالت نہیں چاہیے۔ (غور فرمائیے!) ہمیں سب کچھ چاہیے، لیکن اسلام کے سائے میں۔

اس لیے میں آپ کی خدمت میں عرض کروں گا کہ آپ اسلام، قرآن اور تعلیماتِ اہلِ بیت علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ آپ اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کریں۔ آپ علماء کے ساتھ روابط کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں۔ آپ آپس میں اخوت، صحیح نیت اور برادری کے ساتھ مل کر کام کریں۔ یہ تنگ نظری ٹھیک نہیں کہ میں کہوں: میں ہوں، اور آپ نہ ہوں۔ آپ کہیں: نہیں، میں ہوں، آپ نہ ہوں۔ نہیں! ہم سب مل کر کام کریں۔ اسلام ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ یہ نہیں: اِیَّاکَ اَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ اَسْتَعِیْنُ، بلکہ کہتا ہے: نَعْبُدُ وَ نَسْتَعِیْنُ۔ یعنی ہم مسلمانوں میں ”میں“ کا لفظ نہیں ہے، ”ہم“ کا لفظ ہے۔

ہم آئی۔ایس۔او والے، خواہ وہ سندھ سے تعلق رکھتے ہوں یا بلوچستان سے، خواہ پنجاب سے ہوں یا شمالی علاقہ جات سے، خواہ آزاد کشمیر سے ہوں یا فرنٹیئر اور آزاد قبائل سے، ہم سب مل کر اس تنظیم، کہ جس کے لیے ہمارے بھائیوں نے قربانیاں دی ہیں، اس کے لیے کام کریں۔

چونکہ اذان ہو چکی ہے، اس لیے میں اس سے زیادہ مزاحم نہیں ہوتا۔ لیکن ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ ہم آپ سے توقعات رکھتے ہیں، اور جہاں جہاں سے آپ تشریف لائے ہیں، اس جگہ کے مومنین و مسلمین آپ سے توقعات رکھتے ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ آپ ان سب کے احساسات و جذبات کا احترام کرتے ہوئے فیصلہ کرکے یہاں سے جائیں گے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

مساجد ہمارے مورچے ہیں، جہاں انسان اپنے رب کے حضور تذلل اور خشوع و خضوع کرتا ہے

شہید عارف حسین الحسینیؒ

قرآن کہتا ہے کہ مومن ہونے کا مطلب ہے سربلندی اور سرفرازی۔
مومن کا مقصد واضح ہوتا ہے، اس لیے وہ کبھی سست نہیں پڑتا۔

شہید عارف حسین الحسینیؒ

ایک اسلامی خاتون کو شریعت اسلامی، تعلیمات اہل بیتؑ اور فقہ جعفریہ کا پابند ہونا چاہیے

شہید عارف حسین الحسینیؒ

اور ہماری رگوں میں بھی وہی خون جاری ہے جو ایرانی اور دیگر مسلمانوں کے بدن میں جاری ہے۔ اگر وہ سامراج کے خلاف لڑ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں لڑ سکتے؟

شہید عارف حسین الحسینیؒ

  تازہ مضامین