بِسْمِ اللہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ

قَالَ الْعَظِیْمُ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ

وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ (آل عمران ۱۳۹)

میں آپ دینی بھائیوں کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے موقع دیا کہ نزدیک سے آپ کی زیارت کرسکوں اور آپ کی خدمت میں کچھ کلمات عرض کرسکوں، کلام خداوندی ہے کہ “وَلَا تَھِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ”۔

“لَا تَھِنُوْا” یعنی سستی مت کرو “وَلَا تَحْزَنُوْا” اور غم و حزن میں مبتلا نہ ہو جاؤ “وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ” اور آپ سر بلند، سرفراز اور کامیاب ہیں “اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ” اگر آپ مومن ہیں تو۔

سستی کون کرتا ہے؟ وہ کرتا ہے جس کے سامنے کوئی ہدف و مقصد نہ ہو۔ آپ کا تو مقصد واضح ہے۔ غم و حزن میں کون مبتلا ہوگا؟ جس کا کوئی سہارا نہ ہو۔ آپ کا تو خدا کے بعد اہل اطہار علیہ السلام اور امام زمانہ روحی لہ الفداء سہارا ہیں۔

سستی وہ کرے گا، ناراحت وہ ہوگا جس کا کوئی مدد کرنے والا نہ ہو۔ آپ کا تو علی علیہ السلام جیسا مدد کرنے والا ہے، وہ علی علیہ السلام جو خالق و مخلوق کے درمیان واسطہ فیض ہے۔ وہ علی جو علت غائی اور غرض خلقت عالم ہے۔

اگر یہ ہستیاں نہ ہوتیں تو اصلاً کائنات کا وجود نہ ہوتا۔ جب علی علیہ السلام اور امام زمانہ علیہ السلام جیسے مولا ہمارے پاس ہیں تو پھر سستی یا غم و غصے کی کیا ضرورت ہے؟

استغاثہ بحضور امام زمانہ علیہ السلام

آپ کو مصائب و مشکلات کا پتا ہے کہ ہماری مشکلات ایک دو نہیں ہیں۔ صرف مذہبی یا صرف سیاسی مشکلات نہیں بلکہ ہماری مشکلات گوناگوں اور متعدد ہیں۔ لیکن اگر ہم مومن ہیں تو ہمارا سہارا خدا اور امام زمانہ علیہ السلام ہیں۔

اگر ہمارا رابطہ ماورائے طبیعت کے ساتھ برقرار رہے، اگر ہم اپنے امام علیہ السلام سے استغاثہ کرکے ان سے مدد مانگتے رہیں تو بخدا ہمارے سارے کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔

جب غیروں کے ساتھ کہ جنہیں اس گھرانے و ان عظیم ہستیوں کی معرفت کاملہ بھی حاصل نہیں، ان کا یہ سلوک ہے کہ ان کی مدد کرتے ہیں تو اے مشکل کشا علی کے ماننے والو، جب تم علی علیہ السلام کا نعرہ لگاؤ گے تو کیسے وہ تمہاری مشکل کو حل نہیں کریں گے؟

خطرناک مسئلے کا بہترین حل

سب سے خطرناک مسئلہ آپس میں اختلافات کا ہے۔ خداوند متعال وہ بھی ان شاء اللہ ختم کرے گا اور ملت جعفریہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اپنے مطالبات منوانے کے لیے اس حکومت کو شکست دے کر کامیاب و سرفراز ہوگی۔

جیسا کہ مجھ سے پہلے علماء نے بھی آپ سے یہی عرض کیا ہے کہ اس وقت اتحاد و وحدت کی اشد ضرورت ہے۔

میں بھی یہی عرض کروں گا کہ خدا کے لیے “وَاَعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا” — خدا کی رسی یعنی اہل بیت علیہم السلام کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور اختلاف و تفرقہ سے اجتناب کرو۔

عزاداری، انقلاباتِ زمانہ کا سبب

یہ عزاداری ہے کہ جس کی وجہ سے ہم زندہ ہیں، جس کی وجہ سے مظلومین، ظالموں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور دنیا میں انقلابات آتے ہیں۔

اگر مختار نے اپنے دور میں طاغوتی طاقت کے خلاف انقلاب برپا کیا تو وہ شہدائے کربلا کے مقدس خون کی برکت سے تھا۔

اگر آپ بھی اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں تو بخدا عزاداری امام حسین علیہ السلام ایک ایسا مدرسہ ہے کہ جس میں ہمیشہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا درس دیا جاتا ہے۔

مساجد، دشمنوں کے مقابل ڈھال

مساجد ہمارے مورچے ہیں، جہاں خدا کی عبادت کی جاتی ہے، جہاں بندہ اپنے رب کے سامنے تذلل و خشوع کا اظہار کرتا ہے، جہاں بندہ جہادِ اکبر میں مشغول ہو کر اپنے نفس کو شکست دیتا ہے۔

انہی مساجد میں جوانوں کی تربیت کی جاتی ہے، ایمان مضبوط ہوتا ہے، معرفت اور امامت کے بارے میں درس دیا جاتا ہے۔

آپ اپنی مساجد کو آباد رکھیں۔ اگر ہم نے عزاداری کا مدرسہ اور مساجد کے مورچے کو آباد کرلیا تو یہ ہمارے دو بہترین مورچے ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے سیاسی و دینی مسائل حل کر سکتے ہیں۔

بچوں کی تربیت

اپنے بچوں کو ابھی سے مساجد اور امام بارگاہوں سے مانوس کریں۔ اگر ابتداء سے ہی نماز میں لائیں گے تو بالغ ہو کر کبھی مسجد سے نفرت نہیں کریں گے۔

اگر ابتداء سے مانوس نہ کیا اور وہ غلط سوسائٹی میں پڑ گئے تو کل آپ خود کو ملامت کریں گے۔

خواتین کی ذمہ داریاں

ایک اسلامی معاشرے میں صرف مرد حضرات کے دوش پر ذمہ داریاں نہیں ہیں بلکہ مسلم خواتین کے بھی کچھ فرائض ہیں۔

ایک اسلامی خاتون کو شریعت مقدسہ، تعلیماتِ اہل بیت اور فقہ امام صادق کا پابند ہونا چاہیے۔

بعض افراد جو حقیقت میں خواتین کے دشمن ہیں وہ چاہتے ہیں کہ اس پاک ذات کو آزادی دلوا کر اپنے نفس کا اسیر بنائیں۔

اسلام نے عورت کے لیے کچھ حدود مقرر کی ہیں، جیسے کہ حجاب۔ ایک مسلمان عورت کو اپنے بال اور بدن کے دیگر حصے نامحرم سے چھپانے چاہئیں۔

اگر ایک عورت اسلامی تربیت حاصل کرے، تو اس کے دامن میں نیک اولاد پرورش پاتی ہے، اور بہترین اسلامی معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

مجھے امید ہے کہ سب لوگ اپنے فرائض شرعیہ پر عمل کریں گے اور حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ظہور کے لیے قدم بڑھائیں گے۔

آخر میں آپ سب مومنین بھائیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کے احساسات و جذبات کا احترام کرتا ہوں۔ میری وجہ سے آپ کو زیادہ دیر بیٹھنا پڑا جس سے آپ کو تکلیف ہوئی، اس لحاظ سے میں معذرت خواہ ہوں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

مساجد ہمارے مورچے ہیں، جہاں انسان اپنے رب کے حضور تذلل اور خشوع و خضوع کرتا ہے

شہید عارف حسین الحسینیؒ

قرآن کہتا ہے کہ مومن ہونے کا مطلب ہے سربلندی اور سرفرازی۔
مومن کا مقصد واضح ہوتا ہے، اس لیے وہ کبھی سست نہیں پڑتا۔

شہید عارف حسین الحسینیؒ

ایک اسلامی خاتون کو شریعت اسلامی، تعلیمات اہل بیتؑ اور فقہ جعفریہ کا پابند ہونا چاہیے

شہید عارف حسین الحسینیؒ

اور ہماری رگوں میں بھی وہی خون جاری ہے جو ایرانی اور دیگر مسلمانوں کے بدن میں جاری ہے۔ اگر وہ سامراج کے خلاف لڑ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں لڑ سکتے؟

شہید عارف حسین الحسینیؒ

  تازہ مضامین