شہید محمد حسین شاد کی برسی کے موقع پر خطاب
جولائی ۱۹۸۵
شورکوٹ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
خراجِ عقیدت
جب قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین اعلیٰ اللہ مقامہ نے ’’ھَلْ مِنْ نَّاصِرٍ‘‘ کی آواز بلند کی یعنی کیا فقہ جعفری کا کوئی ناصر و مددگار ہے؟ تو پاکستان کے گوشے گوشے سے امیر و غریب، عالم و غیر عالم، واعظ و ملنگ سب کے سب یا علیؑ کے نعرے لگاتے ہوئے اسلام آباد پہنچ گئے اور مفتی صاحب مرحوم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انہوں نے اسلام آباد سیکرٹریٹ کا محاصرہ کر لیا اور اس مجمع میں تقریباً پانچ لاکھ افراد موجود تھے۔ سب کے سب یا ان میں سے اکثر و بیشتر شہادت کی تمنا اور آرزو کے ساتھ آئے تھے مگر شہادت ایک ایسا عظیم مقام اور بلند درجہ ہے کہ جس کے لیے پہلے سے لیاقت اور قابلیت ہونی چاہیے۔ اس مجمع میں کوئی بھی یہ اہلیت اور لیاقت نہیں رکھتا تھا سوائے اس شورکوٹ کے جوان فرزند شہید محمد حسین شادؒ کے کہ جو اس مرتبے کے لائق تھے اور وہ اس مقام تک پہنچ چکے تھے کہ خدا کی طرف سے (بلاوے کی) آواز آئی اور ان کی روح اپنے بدن سے پرواز کر کے شہدائے کربلا، شہدائے بدر و اُحد اور دیگر شہدائے اسلام کے ساتھ شامل ہو گئی۔ یہ سعادت فقط شورکوٹ کے مؤمنین کو حاصل ہوئی۔ یہ عظیم منزلت صرف اور صرف محمد حسین شاد کے گھرانے، ان کے بھائیوں اور والدین کو حاصل ہوئی، اگرچہ اور بھی بہت سے جوان کفن پہن کر وہاں گئے تھے لیکن وہ یہ سعادت حاصل نہ کر سکے۔
اے شہیدِ اسلام! اے شہیدِ نفاذ فقہ جعفریہ
اٹھو! اور دیکھو جس مقصد کے لیے آج کے دن تم نے اپنا خون دیا تھا وہ قائد مرحوم کے زمانے میں پورا ہو گیا تھا لیکن جب شیعوں نے آپ کے خون کو بھلا دیا اور آپس کے جھگڑوں میں لگ گئے تو آج پھر دشمن دھمکی دے رہا ہے کہ ہم نفاذِ فقہ جعفریہ کے معاہدے پر عمل نہیں کریں گے۔
اے شہیدِ اسلام! اے شہیدِ نفاذِ فقہ جعفریہ
آپ نے کیا عظیم کام کیا۔ آپ نے شورکوٹ کو پوری ملت جعفریہ کا مرکز بنا دیا۔ سارے شیعوں کے لیے آپ کا مزار مرکز ہے۔ آج گلگت و بلتستان سے سندھ و بلوچستان، پٹھان و پنجابی، سب کے سب آپ کی قبر پر حاضر ہوتے ہیں اور اظہارِ عقیدت کرتے ہیں۔
ملت کی کوتاہی
آقایانِ عزیز! اسلام آباد میں جو کنونشن ہوا، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے نسبتاً اس میں کامیابی حاصل کی لیکن افسوس، صد افسوس کہ ہم نے اس کو اپنی انتہائی فتح اور آخری کامیابی سمجھ لیا اور یہ ہماری غلطی تھی کیونکہ یہ ہماری آخری کامیابی نہیں تھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جب اسلام آباد میں معاہدہ ہو گیا تو اس کے بعد بھی ہم حاضر رہتے، حکومت کے کاموں پر کڑی نظر رکھتے، دوستوں و دشمنوں سب کے اوپر کڑی نظر رکھتے۔ اگر حکومت اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتی تو ہم فوراً اس کے کان کھینچتے! اگر اپنوں میں سے کوئی اس کے خلاف قدم اٹھاتا تو اس کے قدموں کو کاٹ ڈالتے، اگر غیروں میں سے کوئی ہماری طرف ہاتھ بڑھاتا تو اس کے ہاتھوں کو قلم کرتے مگر افسوس کہ ہم نے قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر حسینؒ کو میدان میں تن تنہا چھوڑ دیا۔ جب حکومت نے دیکھا کہ وہ ملت جو ۴۔۵ جولائی ۱۹۸۰ء کو اسلام آباد کفن پہن کر آگئی تھی، وہ اس معاہدے کو آخری کارروائی اور آخری فتح سمجھتے ہوئے، اپنے اپنے گھروں کو واپس چلی گئی ہے اور میدان خالی ہے تو آپ نے دیکھا کہ بہت جلد اس حکومت نے اپنے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
حکومت کی وعدہ خلافی
زکوٰۃ و عُشر جو اس معاہدے کے تحت شیعوں پر معاف کیا گیا تھا، اب یہ انتظامیہ انتقامی کارروائی کرتے ہوئے شیعہ زمینداروں سے وصول کر رہی ہے لیکن ہم نے عرض کر دیا ہے کہ اگر ہم نے یہ مالیات ادا کیے تو گویا ہم نے شہید کے خون کو پامال کر دیا۔ ہم نے مفتی صاحب مرحوم کی روح کو قبر میں تڑپایا ہے اور ہم نے جعفر ابن محمد علیہما السلام کے ساتھ غداری کی ہے۔
جب ایک دفعہ ہم نے کہہ دیا ہے کہ ہم سوائے فقہ جعفریہ کے کسی اور فقہ کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیں گے تو ہمیشہ کے لیے ہماری یہی بات ہے۔ کل بھی ہمارا یہی موقف تھا، آج بھی ہے اور کل بھی یہی رہے گا۔ معاہدہ تو یہ تھا کہ جو بھی قانون بنایا جائے، اس میں فقہ جعفریہ والوں کے لیے فقہ جعفری کا اختیار رکھا جائے گا مگر افسوس کہ اس میں بھی وہ خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
خون شہید سے دستخط
نفاذِ فقہ جعفریہ کا اسلام آباد میں جو معاہدہ ہوا ہے، اس معاہدے کے نیچے سیاہی کے ساتھ دستخط نہیں ہیں بلکہ شہید کے خون کے ساتھ سرخ دستخط ہیں۔ یہ وہ سرخ دستخط ہیں جو آج سے چودہ سو سال پہلے شہدائے بدر و اُحد اور شہدائے کربلا نے اسلام و قرآن و اہل بیتؑ کے دفاع کی خاطر کیے تھے۔ ظالموں نے بہت کوشش کی کہ ان دستخطوں کو ختم کریں مگر وہ خود ختم ہو گئے لیکن یہ دستخط ختم نہ ہوئے۔ انہیں یہ جاننا چاہیے کہ خود وہ تو ضائع ہو جائیں گے لیکن نفاذِ فقہ جعفریہ کا جو معاہدہ ہو چکا ہے، وہ ضائع نہیں جائے گا۔
تم پاکستان کی اسلامی اور جمہوری مملکت میں سلطنت اور شہنشاہیت کے خواب دیکھ رہے ہو لیکن تم یہ سمجھ لو کہ جن کی تم مثال دے رہے ہو آج وہ خود اپنی شہنشاہیت کا دفاع نہیں کر سکتے بلکہ اپنے تخت و تاج کو بچانے کے لیے شیطان بزرگ کے غلام بن کر رہ گئے ہیں اور دوسرے ممالک سے کرائے پر فوجی منگوا کر اپنے تخت و تاج کی حفاظت کر رہے ہیں۔
جبکہ وہاں کی شہنشاہیت کے زوال کے دن آگئے ہیں پھر پاکستان تو ایک جمہوری ملک ہے۔ آپ کے آنے سے پہلے یہاں جمہوریت کا پودا لگ چکا تھا اور یہ روز بروز ترقی کی راہ پر گامزن تھا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ تنزل کرے اور جمہوریت سے شہنشاہیت میں بدل جائے۔ یہ خواب تم دل میں لے کر قبر میں چلے جاؤ اور ہرگز اس میں کامیاب نہیں ہو گے۔
وہ لوگ جو تمہارے کانوں میں باتیں ڈالتے ہیں
خواہ وہ امریکی ہوں یا دوسرے ہوں، وہ خود آج وائٹ ہاؤس کے باہر رکاوٹیں کھڑی کر کے اپنی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں۔ آج اس شیطان بزرگ کو بیروت سے ذلیل و خوار کر کے باہر نکال دیا گیا ہے۔ اس شیطان بزرگ نے جب خلیج میں مداخلت کی دھمکی دی تو ہر جگہ اسلام، جمہوری اسلامی اور امامِ امت، خمینیٔ کفر شکن کے فرزندوں نے امریکہ، اس شیطان بزرگ کے خلاف اعلان جنگ کیا چنانچہ اس ملعون نے مجبور ہو کر یہ بیان دیا کہ خلیج کا معاملہ ہم سفارتی طریقے سے حل کریں گے۔
امریکہ اور روس، خالی بت ہیں
اے اسلام کا نام لینے والو! تمہیں ہم یہ نصیحت کرتے ہیں کہ امریکہ و روس پر اعتماد مت کرو! یہ خالی بت ہیں جن کے اندر کچھ بھی نہیں۔ اگر ان کے اندر کچھ ہوتا تو وہ اپنے فوجیوں کے لیے بیروت میں کچھ کرتے ان میں اگر کچھ طاقت ہوتی تو آج روس افغانستان میں مجاہدین کے مقابلے میں یوں سرگرداں نہ ہوتا! آج تو ثابت ہو چکا ہے کہ سپر طاقت صرف اور صرف اللہ ہے، اسلام و قرآن ہے۔ تمہیں چاہیے کہ اسلام و قرآن کی طرف واپس لوٹ آؤ۔
کیا اس سے پہلے انہوں نے تمہاری مدد کی ہے؟ وعدہ تو کیا کہ فلاں بیڑہ آرہا ہے۔ مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے چلا گیا لیکن ان کا بیڑہ نہیں آیا۔ جو بھی خدا کے علاوہ کسی اور طاغوتی طاقت کا سہارا لیتا ہے، وہ اسی طرح بدبخت و ذلیل ہو جاتا ہے۔


