دورہ بھکر کے مو قع پر خطاب
بھکر، پاکستان
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اتحاد کی پکار
اگر اسلامیان برصغیر کے ذہنوں میں ایسے خیالات تھے کہ ہمیں ایک مستقل ریاست حاصل کرنا چاہیے اور اس کا واحد سبب یہ تھا کہ لوگ چاہتے تھے کہ ایک ایسی ریاست قائم ہو جہاں پر اسلامی نظام نافذ ہو۔ انگریز کے نظام اور باطل قوانین سے چھٹکارا حاصل ہو۔ اگر پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے تو اس کے بننے میں شیعیان حیدر کرار علیہ السلام کی قربانیاں اگر دوسروں سے زیادہ نہ ہوں، تو کم بھی نہیں ہیں۔ آج بھی پاکستان کی حفاظت میں شیعیان حیدر کرار علیہ السلام پیش پیش ہیں۔ جتنی بھی جنگیں ہندوستان کے ساتھ لڑی گئی ہیں ان میں شیعیان حیدر کرار علیہ السلام نے ہر قسم کی قربانیاں دیں۔ اگرچہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا، لیکن پہلے جتنے بھی حکمران گزرے انھوں نے اسے فراموش کیا اور بھلا دیا تھا۔ لیکن موجودہ حکومت نے اسلام لے لیا، تو ایک ایسے اسلام کا کہ جس سے فرقہ واریت کی بو آتی ہے، استعمار امریکہ خوش ہوتا ہے۔ ایسے اسلام کا نام لیا کہ جس کی وجہ سے ملک کے حالات کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جب پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے تو پھر اسلام کسی ایک فرقہ کا نام نہیں ہے بلکہ اسلام ان فرقوں سے بالاتر ہے۔ پس اسلامی نظام، ایسا نظام ہونا چاہیے جس سے فرقہ واریت کی بو نہ آئے جو کسی ایک فرقہ کی ترجمانی نہ کرے بلکہ جس میں ہر مکتبہ فکر کو اس کا پورا پورا حق دیا گیا ہو۔
برادرانِ اسلامی! ہم مسلمان ہیں۔ اسلام کے لیے تاریخ میں جو قربانیاں اہل بیت اطہار علیہ السلام کے پیروکاروں نے دی ہیں، تاریخ کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ ہم نے کل بھی اسلام و قرآن کے لیے قربانیاں دی ہیں اور آج بھی ہم خود کو مسلمان سمجھتے ہیں اور اسلام و قرآن کے لیے قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ جب انسان مسلمان ہو تو مسلمان کو اور کسی ازم (نظریہ) کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ کسی مسلمان کے لیے یہ عار اور باعث ذلت ہے کہ وہ قرآن اور اسلام کے علاوہ کسی اور ازم کے سائے میں زندگی گزارنا چاہے، خواہ وہ مغربی نظام ہو یا مشرقی۔
میں بھائیوں سے ایک خواہش کروں گا۔ بے شک آپ کے احساسات و جذبات میرے لیے قابل احترام ہیں، لیکن وقت کا خیال کرتے ہوئے آپ نعرے جتنے کم لگائیں گے ہم اتنی زیادہ بات کرسکیں گے۔
اسلام محمدی اور امریکی اسلام
برادرانِ عزیز! ہم عزت، شرافت، استقلال اور عدالت سب کچھ چاہتے ہیں، لیکن اسلام و قرآن کے سائے تلے چاہتے ہیں۔ ہمیں قرآن یا اسلام کے علاوہ کسی اور ازم کے سائے میں جنت بھی ملے تو بھی ہم قبول نہیں کریں گے۔ لیکن کون سا اسلام؟ وہ اسلام جو اسلام محمدی ہے، وہ اسلام جو امریکی اسلام نہ ہو۔ کیا فرق ہے امریکی اسلام اور اسلام محمدی میں؟ ایک بڑی علامت یا نشانی ہونا چاہیے۔ قرآن سے پوچھتے ہیں۔
وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلَا النَّصٰرٰی حَتَّی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُمْ (بقرہ۔۱۲۰)
قرآن کہتا ہے کہ جب تک تم ان یہود و نصاریٰ، امریکی اور روسی نظاموں اور ان کی سیاست کی پیروی نہیں کرو گے تب تک وہ تم سے خوش نہیں ہوں گے۔ اب فرق واضح ہوگیا کہ اسلام محمدی اور اسلام محمدی والوں سے امریکہ اور روس کیوں ناراض ہیں؟ آپ بتائیں کہ دنیا میں کتنی مملکتیں ہیں جو اسلام کا دعویٰ کرتی ہیں؟ وہ دو ہیں لیکن میں نام نہیں لوں گا بلکہ آپ خود پہچانتے ہیں۔
ایک اسلامی حکومت وہ ہے کہ جس کو امریکہ مدد دیتا ہے، جس سے امریکہ راضی ہے، جس کا امریکہ دفاع کرتا ہے اور دوسری مملکت وہ ہے جو ایک پرامن خطہ میں واقع ہے جس کے خلاف صبح اور شام امریکہ سازشیں کرتا رہتا ہے تاکہ کسی طریقے سے اسلام محمدی کا یہ نظام تباہ ہوجائے۔ آپ خود پہچانتے ہیں کہ کہاں پر اسلام امریکی ہے اور کہاں پر اسلام محمدی ہے۔
شریعت بل کی محدودیت
ہم صاف کہتے ہیں اولاً شریعت بل (میری بات کو غور سے سنو۔ احساسات و جذبات کو کنٹرول کرو) کے پاس کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لیے کہ قرارداد مقاصد اور ۱۹۷۳ء کے اس آئین میں جسے قوم کے منتخب نمائندوں نے پاس کیا، اس میں اسلام اور شریعت کی بالادستی کے بارے میں واضح ہدایت موجود ہے۔ اس لیے اس کی خاص ضرورت نہیں ہے۔ خوب اگر ضرورت تھی اور آپ لوگوں نے ضرورت کا احساس کیا تو پھر اس لحاظ سے ہم پاکستانِ اسلامی میں اس وقت دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ اسلام، حضرت محمد مصطفیٰﷺ، قرآن اور اسلامی احکام کے خلاف باتیں کرتے ہیں، مقالے لکھتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ اگر ان کے مقابل کوئی ایسا شخص ہو جو اسلام اور قرآن کی حمایت کرے، جو اسلام اصیل کی بالادستی کے لیے تقریر کرے یا تحریر کرے یا کوئی اور قدم اٹھائے تو ہم اس کا استقبال کریں گے لیکن ہم ان بھائیوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر آپ واقعاً آج پاکستان میں شریعت کی بالادستی چاہتے ہیں تو پھر آپ کا ایسے فرقے کو نظرانداز کرنا جو پاکستان میں کثیر تعداد میں ہے، ان کے احساسات و جذبات کو مجروح کرنا، آیا یہ بھی شریعت بل کے موافق ہے؟ خود آپ کا یہ کام کرنا کہ ایک گروہ جو مسلمان ہے اور اسلام کے نام پر قربانی دیتا آرہا ہے، اس عظیم گروہ کے جذبات کو مجروح کریں، ان کے افکار کو نظرانداز کریں، یہ خود شریعت محمدی کے خلاف ہے۔ اگر شریعت بل پاس کرنا ہے یا پیش کرنا ہے تو پھر ایک ایسا شریعت بل ہو جو کسی ایک فرقہ کی ترجمانی نہ کرے، ایسا شریعت بل جو افتراق، نفاق اور جھگڑے کا باعث نہ ہو، ایسا شریعت بل پاس کرنا چاہیے جو مسلمانوں کے اندر اخوت کا جذبہ بیدار کرے جو مسلمانوں کو اسلام کے دشمنوں امریکہ و روس کے خلاف متحد کرے نہ کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرے۔ ہم بار بار یہی کہتے آئے ہیں اور ہم نے اپنی طرف سے ترامیم بھی پیش کی ہیں کہ اگر شریعت بل پاس کرنا ہے تو پھر اہل بیت اطہار علیہ السلام کے فرامین کے مطابق شریعت بل منظور کیا جائے۔ اگر موجودہ شکل میں اسی بل کو پاس کیا گیا تو یقیناً اس کے منفی نتائج مثبت نتائج سے کئی گنا زیادہ ہوں گے، تو پھر ذمہ داری کس کے اوپر ہوگی؟ یقیناً حکومت اور ان بھائیوں پر جنہوں نے شریعت بل کو پیش کیا ہے۔ ان پر جو ہر صورت میں اس کو پاس کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
استعمار سے آزادی ضروری ہے
برادرانِ اسلامی! ذرا ہوشیار ہو جائیں۔ کیوں ایسا کام کرتے ہیں جس کے نتیجے میں شیعہ سنی فساد ہوجائے۔ پورے پاکستان میں ہر جگہ پُر امن فضا خراب ہو جائے۔ امریکی سازشیں کامیاب ہو جائیں۔ ہم ان بھائیوں سے یہی کہتے ہیں کہ اے برادرانِ اسلامی! بل پاس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ قرارداد مقاصد میں سب مطالب موجود ہیں۔ مسئلہ ان کو عملی جامہ پہنانے کا ہے۔ آپ اس وقت یہاں اسلامی نظام نافذ کرسکتے ہیں جب پاکستان کو امریکی اثر ورسوخ سے آزاد کروالیں۔
برادرانِ اسلامی! میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں کہ آپ اگر کسان ہیں اور اپنے کھیت میں بیج بونا چاہتے ہیں تو آپ پہلے کیا کرتے ہیں؟ اس کھیت سے پتھر جمع کرتے ہیں، اس میں اگر کوئی کانٹے وغیرہ ہوں تو وہ جمع کرتے ہیں، اسے ہموار بناتے ہیں، اس کے بعد آپ اس میں بیج بوتے ہیں۔ اگر آپ نے ایک زمین کو صاف نہیں کیا، پتھر صاف نہیں کیے، اس میں کانٹے وغیرہ جمع نہیں کیے اور اس میں آپ نے بیج بو دیا تو آیا آپ اس بیج سے نتیجہ حاصل کر سکیں گے؟
برادرانِ اسلامی! جب تک پاکستان میں انگریزی قوانین موجود ہیں، انگریزی تہذیب موجود ہے جب تک امریکہ پاکستان کے ہر شعبے میں گھسا ہوا ہے اور ہمارے فیصلے اسلام آباد کی بجائے واشنگٹن میں ہو رہے ہیں تو نہ یہاں اسلامی نظام قائم ہوسکتا ہے نہ اسلامی معاشرہ۔
پس میں سب مسلمان بھائیوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ جو بھی اپنے دل میں اسلام و قرآن کی محبت رکھتا ہو، جو نظام اسلام کا شیدائی ہو اور جو بھی کفار (خصوصاً امریکہ، روس، اسرائیل) کے خلاف اپنے دل میں نفرت رکھتا ہو ہم انھیں اپنا بھائی سمجھ کر اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ان کے ساتھ ایک جسد واحد بن کر دشمنان اسلام کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانے کے لیے تیار ہیں لیکن ایسا اسلامی نظام جس میں شیعوں کو اپنے حقوق، اہل حدیث، بریلوی، دیوبندی کو اپنے اپنے حقوق ملیں۔ ہر مکتبہ فکر والوں کے احساسات و جذبات کا احترام کیا جائے۔ ایسا اسلامی نظام نہیں جو فرقہ واریت کی طرف پورے ملک کو لے جائے۔ ہم ایک مرتبہ پھر عرض کرتے ہیں کہ ہم مسلمان اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں، قرآن و سنت کی بالادستی چاہتے ہیں لیکن ایسا اسلام جس میں کسی فرقے کی حق تلفی نہ ہو، کسی فرقے کے ساتھ زیادتی نہ کی جائے۔
برادرانِ اسلامی! جیسا کہ ۱۹۷۹ء میں حکومت وقت نے غلط ارادہ کیا تو شیعیان حیدر کرار علیہ السلام اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے (جیسے برادرِ محترم سید وزارت حسین نقوی نے فرمایا) اس وقت بھی جب حکومت نے یہ ارادہ کیا شیعیان حیدر کرار علیہ السلام اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ آج بھی اگر حکومت ہمارے احساسات و جذبات کو مجروح کرنا چاہے، ہماری حق تلفی کرنا چاہے یا فقہ جعفریہ کو نظرانداز کرنا چاہے تو پھر ہم وہی شیعہ ہیں۔ ہماری رگوں میں وہی خون ہے ہم بدلے نہیں ہیں۔ ہم کل سے آج مضبوط ہوگئے ہیں۔
مارشل لاء کے دور میں ہمارے نوجوان، بوڑھے اور یہاں تک کہ ہماری خواتین بھی اسلام آباد پہنچ چکے تھے۔ سیکرٹریٹ کا محاصرہ کرلیا تھا۔ آج اگر مارشل لاء نہیں ہے تو پھر ہمارے لیے ایسے مسائل کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس لیے حکومت کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ حقائق کو درک کرنا چاہیے۔ ہم غیور اور پُر امن قوم ہیں۔ تشدد پسند یا شر پسند نہیں ہیں۔ ہم امن سے رہنا چاہتے ہیں لیکن اگر کوئی خواہ مخواہ ہمارے جذبات و احساسات کو مجروح کرنا چاہے تو پھر ہم ایسے بھی نہیں کہ جس طرح عیسائیت میں ہے کہ اگر کوئی رخسار پر تھپڑ مارے تو آپ دوسرا رخ اس کی طرف کردیں۔ ہم اپنا دفاع، عقیدے کا دفاع، حقوق کا دفاع اپنا شرعی وظیفہ سمجھتے ہیں اور اس راستے میں ہمیں جو قربانی دینا پڑے ہم دریغ نہیں کریں گے۔
اتحاد وقت کی اہم ضرورت
برادرانِ اسلامی! میں ایک مرتبہ پھر آپ کے احساسات کا احترام کرتے ہوئے آپ سے یہ اپیل کروں گا۔ برادرِ عزیز! آج ہمیں سب سے زیادہ اتحاد، اتفاق، وحدت، محبت اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے اگر خدانخواستہ ہمارے درمیان انتشار اور نفاق ہوا تو اپنے مسائل حل کرنا تو کجا، ہماری مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جائے گا لیکن اگر ہم متحد اور متفق ہیں تو ہم بڑی سے بڑی مشکل کا آسانی سے مقابلہ کرلیں گے۔ آپ کے احساسات و جذبات کی برکت سے میرا حوصلہ بھی بلند ہوگیا ہے لیکن میں آپ سے خواہش کروں گا کہ حتی المقدور آپ کوئی ایسا نعرہ نہ لگائیں جس سے کسی اور بھائی کے احساسات مجروح ہوتے ہوں۔ آپ اگر نعرہ لگاتے ہیں تو نعرہ لگائیں کہ سن لو امریکہ! سن لو روس! سن لو گورباچوف! سن لو ریگن ہم تمہاری موت ہیں۔
اگر آپ نعرہ لگائیں گے کہ سن لو امریکیوں! اگر بھکر میں کوئی امریکی نہیں ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ ہمارے بھائی کہیں کہ خواہ مخواہ ہمیں چھیڑنے کے لیے ایسا نعرہ لگاتے ہیں۔ ا س لیے میں آپ سے یہ خواہش کروں گا کہ آپ ایسا نعرہ لگائیں جس سے امریکہ اور روس لرز جائیں نہ یہ کہ خدانخواستہ یہاں ہمارے شیعہ بھائیوں میں کوئی ایسا آدمی یا ہمارے اہل سنت و الجماعت بھائیوں میں کوئی احساس کرے کہ یہ ہمیں چھیڑنے کے لیے نعرہ لگاتے ہیں جس سے کوئی منفی اثرات مرتب ہوں۔
اس کے ساتھ میں یہ خواہش کروں گا کہ آپ اپنے شیعی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کے لیے آگے آئیں۔ اتحاد بین المسلمین بھی وقت کی اہم ضرورت ہے اور عظیم الشان لیڈر امام خمینی فرماتے ہیں خدانخواستہ اگر سنی شیعہ اختلاف چاہے وہ پاکستان کے کسی خطے میں ہو تو اس سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے امریکہ روس اور کفار کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اس لیے آپ اپنے شیعی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کے لیے کام کریں۔ خداوند متعال ہمیں اور آپ سب کو اپنے اپنے فرائض سے آگاہی اور پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اور آخر میں ایک بار پھر آپ سب بھائیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ


